• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 150987

    عنوان: تین طلاق اورحلالہ كیا ہے؟

    سوال: حضرت ! مجھے یہ مسئلہ جاننا ہے کہ تین طلاق جو دے رہے ہیں کیا وہ ایک ہی بار میں دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ کہ اس کا کوئی وقت مقرر ہے۔ اور حلالہ کیا ہے؟ آج کل لوگ انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں بہت ہی غلط مطلب بتا رہے ہیں۔ اس لیے حضرت، آپ سے میری یہی گذارش ہے کہ حلالہ اور تین طلاق کے بارے میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کو بالتفصیل بتائیں۔ آپ کے جواب کا مجھے بہت بے صبری سے انتظار ہے۔

    جواب نمبر: 150987

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 801-817/sd=9/1438

    ایک ساتھ تین طلاق دینا حرام و ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے ؛ لیکن اگر دیدی گئی، تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، طلاق سے متعلق شریعت کی واضح ہدایات اور تعلیمات موجود ہیں، اس کی تفصیل کے لیے آپ رسالہ :طلا ق عدل و انصاف پر مبنی اسلام کا ایک مستحکم قانون کا مطالعہ فرمائیں اورحلالہ کی حقیقت یہ ہے کہ شوہر کے بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد شوہر کے لیے مطلقہ ثلاثہ کے حلال ہونے کی شریعت نے جو ترتیب بتلائی ہے، یعنی: عدت گزارکر عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور دوسرا شوہر ہمبستری بھی کرلے، پھرکسی وجہ سے طلاق دیدے یا انتقال کرجائے اور عورت عدت طلاق یا عدت وفات گزارلے، تو اب یہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے، پہلے شوہر کے لیے عورت کے حلال ہونے کے اس شرعی ضابطے کو ”تحلیل“ کہتے ہیں، جس کو اردو میں ”حلالہ شرعیہ“سے تعبیر کرتے ہیں، حلالہ کا ذکر قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں ہے : فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (الآیة) واضح رہے کہ اگر کوئی شخص مطلقہٴ ثلاث سے تحلیل اورحلالہ کی شرط پر ہی نکاح کررہا ہے تو یہ فعل مکروہ تحریمی ہے، حدیث شریف میں اس پر لعنت وارد ہوئی ہے : إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن المحلل والمحلل لہ (ترمذی: ۱/۲۱۳، أبواب النکاح) ہاں اگر کوئی شخص عقد میں حلالہ کی شرط کے بغیر اپنے دل میں یہ سوچ کر کہ اس کا گھر ویران ہوگیا ہے، کیا اچھا ہو کہ اس کا گھر آباد ہوجائے اور پریشانی دور ہوجائے مطلقہٴ ثلاث سے نکاح کرلیتا ہے اورہمبستری کے بعد طلاق دیدیتا ہے، پھروہ عورت عدت گزارکر سابق شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی حسن نیت پر ثواب ملنے کی امید ہے، قال فی الدر: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل مأجور ا لقصد الإصلاح (الدر مع الرد: ۵/۴۸، زکریا)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند