عنوان: ”تم اپنی بہن کے گھر نہیں جاو گی، اگر گئی تو مجھ پر حرام ہوگئی“ کا حکم کیا ہے؟
سوال: کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱۔ میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ تم اپنی بہن کے گھر نہیں جاو گی، اگر گئی تو مجھ پر حرام ہوگئی۔ اور یہ الفاظ بھی کہے کے مجھ سے فارغ ہوگئی ، اور بار باریہ الفاظ کہے ۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہا کے جب جاو تو اپنے کپڑے ساتھ لے جانا اور واپس اپنے اپنی امی کے گھر جانا کیوں کے تم نے میری نا فرمانی کی ہے اور لیے تم مجھ پے حرام ہو۔ میرا ارادہ اس کو ڈرانے کا تھا، طلاق دینے کا نہیں۔ جس پرمیری بیوی نے کہا میں جاوں گی۔ ابھی تک میری بیوی نہیں گئی۔ اس کو میں نے پیار سے سمجھایا۔
۲) اب اگر میں اپنی مرضی سے جانے کی اجازت دے دوں تو کیا وہ اپنی بہن کے گھر جا سکتی ہے ؟
۳) اور اگر میرے سسرال والے میری اور میری سالی کے درمیان صلح کرواتے ہیں تو مذ کورہ بالا الفاظ (مجھ پر حرام ہوگئی، اور مجھ سے فارغ ہوگئی) کی شریعت مین حثیت کیا ہو گی؟
۴) کیا میری بیوی اپنی امی کے گھر اپنی بہن سے میل جول۔ بات وغیرہ کر سکتی ہے ؟اس کے ساتھ کہیں آ جا سکتی ہے ْ؟ کیوں کہ میں نے اپنی بیوی کو اس کی بہن کے گھر جانے سے روکا ہے کہیں اور ملنے یا بات کرنے سے نہیں۔ حضرت بالترتیب تفصیلی جواب کی درخواست ہے ۔
جواب نمبر: 15047301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 633-505/D=7/1438
(۱) صورت مسئولہ میں اگر آپ کی بیوی کبھی بھی اپنی بہن کے گھر جائے گی تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، اس میں عدت کے اندر رجوع کرنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ از سر نو نکاح کرنا ہوگا خواہ عدت میں ہو یا عدت کے بعد۔
(۲) جی نہیں! آپ کی اجازت کے بعد بھی وہ اپنی بہن کے گھر نہیں جاسکتی اگر گئی تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی۔
(۳) صلح کرائیں یا نہ کرائیں جب بھی بہن کے گھر جائے گی تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی۔
(۴) جی ہاں! اپنی والدہ کے گھر اپنی بہن سے بات چیت ومیل جول رکھ سکتی ہے، اس کے ساتھ کہیں آجا سکتی ہے، بس بہن کے گھر نہیں جاسکتی: ونحو خلیة بریة حرام ․ الدر وفي الرد: قولہ ”حرام“ من حرم الشيء بالضم حرامًا امتنع۔ وسیأتي وقوع البائن بہ بلانیة في زماننا للعرف․․․ والحاصل أنہ لما تعورف بہ الطلاق صار معناہ تحریم الزوجة، وتحریمہا لا یکون إلا بالبائن (الدر مع الرد: ۵۲۹، ۵۳۱/ ۴، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند