• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 150392

    عنوان: ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاق ایک ہوتی ہے یا تین ؟

    سوال: ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاق ایک ہوتی ہے یا تین ؟ اس مسئلہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف کیا ہے؟ کیا وہ اس مسئلہ میں جمہور کے خلاف رائے رکھتے ہیں؟

    جواب نمبر: 150392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 753-773/N=7/1438

    (۱): ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک ہو، جمہور صحابہرضی اللہ عنہم ،تابعین  رحمہ اللہ اورتبع تابعین  رحمہ اللہ وغیرہم اور ائمہ اربعہرحمہم اللہ اور ان کے متبعین کا قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی مسلک ہے اور یہی حق وصواب ہے۔

    قال اللّٰہ تعالی:فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورة البقرة، رقم الآیة: ۲۳۰)، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعدرضی اللہ عنہ  قال:فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود،کتاب الطلاق،باب فی اللعان ص۳۰۶،ط:المکتبة الأشرفیة، دیوبند)،وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان،باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲:۵۱۴ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع)، وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾ وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ (بدائع الصنائع ۳: ۲۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة (أحکام القرآن للجصاص الرازي، ۲: ۸۵ط:دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان)، وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة: المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب:المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس الخ (مجلة البحوث الإسلامیة، المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷الھجریة، حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹)، وفي ص ۱۴۲منہ بعنوان: القرار: بعد الاطلاع علی البحث المقدم من الأمانة العامة لھیئة کبار العلماء والمعد من قبل اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء في موضوع”الطلاق الثلاث بلفظ واحد“ وبعد دراسة المسألة وتداول الرأي واستعراض الأقوال التي قیلت فیھا ومناقشة ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً (المصدر السابق)،وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق،باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ۱: ۴۷۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،اور مزید دلائل اور تفصیلات کے لییعمدة الأثاث في حکم الطلقات الثلاث،موٴلفہ: حضرت مولانا سرفراز خان صفدر  رحمہ اللہ  دیکھیں ۔

    (۲، ۳): ابن تیمیہرحمہ اللہ  ایک مجلس کا تین طلاقوں کو ایک مانتے ہیں اور ان کا مسلک جمہور علمائے امت کے خلاف اور دلائل کی روشنی میں نہایت کمزور ہے ؛ لہٰذا اس پر عمل کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ۔

    وقد ثبت النقل عن أکثرھم صریحاً بإیقاع الثلاث ولم یظھر لھم مخالف فماذا بعد الحق إلا الضلال، وعن ھذا قلنا: لو حکم حاکم بأنھا واحدة لم ینفذ حکمہ؛ لأنہ لا یسوغ الاجتھاد فیہ فھو خلاف لا اختلاف (رد المحتار، أول کتاب الطلاق، ۴:۴۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن ابن الھمام في فتح القدیر)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند