• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 149971

    عنوان: ساس کے ساتھ بہو کی بدزبانی پر طلاق سے شوہر گنہگار تو نہیں ہوگا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مئلے میں کہ زید کی ماں نے اپنی بہو یعنی زید کی بیوی سے بچوں کی دیکھ بھال کے سلسلے میں کچھ کہا ۔جس طرح ہر گھر کی بڑی بوڑھی عورتیں تربیت کے لئے ،سکھانے اور باسلیقہ بنانے کے لئے کہا کرتی ہیں ۔یہاں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ زید کی ماں ہر طرح سے زید ہی کیا اپنے تمام بچوں کے لئے بہت مخلص ہے اور ہر بچے سے ان کو بہت زیادہ محبت ہے ۔لیکن زید کی بیوی کو ساس کی بات پسند نہیں آئی۔ اس پر اس نے جواب میں کچھ ایسے الفاظ کہہ دیئے جو نامناسب اور تکلیف دہ تھے ۔اتفاق سے یہ واقعہ جب ہوا تھا زید وہاں موجود نہیں تھا ۔زید ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر تھا ۔اس کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو وہ بہت غمگین ہو گیا کیوں کہ وہ اپنی والدہ کے سلسلے میں اس طرح کے الفاظ نہیں سن سکتا ہے ۔ اس کی بیوی جب میکے چلی گئی تو اس نے بطور تنبیہ ناراضگی کے اظہار کے لئے اس سے بات کرنا بند کر دیا ۔تین مہینے تک کسی نے نہیں پوچھا کہ ناراضگی کی وجہ کیا ہے ۔تین مہینے کے بعد لڑکی کے بھائی نے رابطہ کیا تو زید نے پوری بات بتا دی ۔زید کی بیوی نے بھی اس کا اعتراف کر لیا کہ ہاں یہ سب کچھ کہا تھا ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے زید نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب تک وہ اپنی ساس سے خود جا کر معافی نہیں مانگے گی اس کو وہ اپنے پاس نہیں بلائے گا (یعنی سسرال آنے کی اجازت نہیں دے گا )۔ اب اس بات کو زید کے سسرال والے انا کا مسئلہ بنارہے ہیں اور معافی مانگے میں اپنی سبکی اور ذلت محسوس کر رہے جس کی وجہ سے دن بدن بات بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس سے پہلے بھی لڑکی کو یہ شکایت رہی ہے کہ اس کو اس گھر میں کوئی آرام نہیں ملا ہے ۔جب کہ زید کے مطابق اس نے ہر طرح سے اس کے آرام کا خیال رکھا ہے ۔گویا اس کے اندر ناشکری بھی ہے جس کی وجہ سے آئے دن تکرار بھی ہوتی رہتی تھی ۔ایسے حالات میں زید نے صاف واضح کر دیا ہے کہ اگر وہ معافی نہیں مانگے گی تو اس کی واپسی کی کوئی صورت نہیں ہوگی ۔یعنی وہ طلاق دے دے گا ۔ جواب طلب بات یہ ہے کہ کیا صورت مسئولہ میں جو حالات بیان کئے گئے ہیں ایسے حالات میں اگر زید اپنی بیوی کو طلاق دیدیتا ہے تو وہ گنہگار تو نہیں ہوگا؟اس لئے کہ زید کا خیال ہے کہ جس کے نزدیک اس کی ماں کی کوئی قدر نہیں اس کے لئے اس کے (زید کے ) کے دل میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب بات تقریبا طلاق تک پہنچ چکی ہے ۔زید کی شرط کے مطابق اگر معافی نہیں مانگی گئی تو وہ طلاق دے دے گا ۔اور ادھر اس کے سسرال والے اس پر اٹل ہیں کہ معافی کی ضرورت نہیں ہے ۔ براہ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔

    جواب نمبر: 149971

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 635-599/sd=6/1438

     بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید کی اہلیہ کے جو احوال لکھے گئے ہیں، وہ قابل افسوس ہیں، زید کی اہلیہ کو اپنی ساس کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آنا چاہیے، ساس کے ساتھ اپنی والدہ کی طرح معاملہ کرنا چاہیے ؛ لیکن اگر کبھی بیوی کی طرف سے کوئی نامناسب اور تکلیف دہ بات پیش آجائے، تو شوہر اور ساس کو بھی درگذر کا معاملہ کرنا چاہیے اور اپنے بڑے پن کا اظہار کرنا چاہیے، ایک گھرمیں کبھی کبھی ناگوار باتیں پیش آہی جاتی ہیں، اس کو مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، اس لیے صورت مسئولہ میں زید کو چاہیے کہ اگر اہلیہ سے کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اپنی طرف سے اُس کو درگذر کر دے، شریعت میں نکاح کا رشتہ ایک دائمی رشتہ ہوتا ہے، شریعت میں حتی الامکان اس رشتہ کو برقرار رکھنے کی تاکید آئی ہے، یہ افسوس ناک بات ہے کہ تھوڑی سی بات پر معاملہ طلاق تک پہنچ گیا۔

    ----------------------------

    نوٹ: جواب درست ہے دونوں فریق کسی معتبر شخصیت کو حکم بنالیں اور اس پر راضی ہوجائیں کہ وہ جیسا کہیں گے ویسا دونوں فریق کریں گے، مثلاً معافی کے لیے کہیں گے لڑکی معافی مانگ لے، یا ماں از خود معاف کردے، معافی مانگنے کے لیے ہاتھ پیر پکڑنا ضروری نہیں، فون پر بھی معافی کے ا لفاظ کہہ سکتی ہے۔ (د)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند