معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 149381
جواب نمبر: 149381
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 511-531/N=6/1438
آپ بہ ظاہر مُوَسْوِس معلوم ہوتے ہیں، یعنی: آپ کے ذہن میں خیالات اور وساوس کی کثرت رہتی ہے اور آپ جب اکیلے ہوتے ہیں تو ذہن میں آنے والے وساوس و خیالات آپ زبان سے بھی دہراتے ہیں اور وسوسہ کی شدت سے آپ کی عقل مغلوب ہوجاتی ہے ، پس اگر آپ کی یہی کیفیت ہے جو میں نے سمجھی اور آپ نے مختلف اوقات میں بیوی کا نام اور اس کی طرف نسبت کیے بغیر طلاق کا خیال ووسوسہ زبان سے بھی دہرایا، تو اس سے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر کبھی وسوسہ کی شدت کی وجہ سے بیوی کا تصور بھی ذہن میں آگیا اور عقل مغلوب ہوگئی ؛ لیکن آپ نے اسے طلاق دینے کی نیت بالکل نہیں کی تو اس صورت میں بھی آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ اسی طرح آپ نے کسی دن اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ اگر وسوسوں سے خلاصی کے لیے میں دوں ، اس کے بعد طلاق کا وسوسہ آیا اور لفظ طلاق زبان سے بھی نکل گیا تو یہ بھی وسوسہ کی شکل ہے، اس سے بھی آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔آپ وساوس کی طرف توجہ کرنا اور ان میں الجھنا بند کردیں ورنہ آپ کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ اور اس کا علاج یہی ہے کہ آپ وساوس کی طرف توجہ نہ کیا کریں، اگر آپ کچھ روز اس کی مشق کریں گے تو انشاء اللہ آپ کی یہ پریشانی دور ہوجائے گی، اللہ تعالی آپ کو اس مصیبت سے نجات عطا فرمائیں۔
قولہ ”وموسوس“: بالکسر،……وقال اللیث: الوسوة حدیث النفس، وإنما قیل: موسوس؛ لأنہ یحدث بما في ضمیرہ، وعن اللیث: لا یجوز طلاق الموسوس، قال: یعنی: المغلوب في عقلہ، وعن الحاکم ھو المصاب في عقلہ إذا تکلم یتکلم بغیر نظام کذا فی المغرب (رد المحتار، کتاب الجھاد، باب المرتد، ۶:۳۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال عقبة بن عامر: لا یجوز طلاق الموسوس(الموسوعة الفقہیة،۴۳: ۱۴۸)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند