معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 145982
جواب نمبر: 145982
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 119-207/D=3/1438
صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے یہ کہا تھا ”کہ اگر میں تیری کوئی خواہش پوری کروں تو مجھ پر طلاق ہے“ اور زید کے یہاں کے عرف میں ”مجھ پر طلاق ہے“ طلاق شمار ہوتی ہو تو طلاق کی تعلیق صحیح ہوگئی اور زید کے کسی بھی طرح کی خواہش پوری کرنے پر طلاق واقع ہو جائیگی بیوی کے کہنے پر درخت سے پھل توڑنا بھی خواہش پوری کرنے کا مصداق ہے۔ اور اگر اُس کے یہاں کے عرف میں اُسے طلاق نہیں سمجھا جاتا تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی ومن الألفاظ المستعملة الطلاق یلزمنی ․․․․․ وعلیّ الطلاق فیقع بلانیة للعرف۔ الدر وفی الرد: وإنما کان ما ذکرہ صریحاً لانہ صار فاشیاً فی العرف فی استعمالہ في الطلاق ․․․․․ وہذا في عرف زماننا کذلک فوجب اعتبارہ صریحاً ․․․․․ ولاینا في ذلک ما یأتي من انہ لو قال: ”طلاقک علیّ لم یقع“ لأن ذاک عند عدم غلبة العرف وعلی ہذا یحمل ماافتیٰ بہ العلامة ابوالسعود افنذي مفتي الروم: من أن ”علیّ الطلاق“ لیس بصریح ولا کفایة: الدر مع الرد: ۴/۴۶۴، زکریا دیوبند۔
نوٹ: بر وقت کسی کام کے کرنے یا روکنے کے لیے جو قسم کھائی جائے وہ یمینِ فور ہے صورتِ مسئولہ میں ایسا نہیں ہے اس لیے یہ یمین فور نہیں ہے اور جو حضرات یمینِ فور کے قائل ہیں ان کی بات مع دلیل نقل کریں۔ وفي طلاق الاشباہ: إن للتراخي إلا بقرینة الفور ․․․․ فإذا قال لہا إن خرجت فکذا وخرجت فوراً أو بعد یوم مثلا حنث: الدر مع الرد: ۵/ ۵۵۶، زکریا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند