• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 11915

    عنوان:

    میرے بیٹے کی پیدائش ۲۸ جنوری ۱۹۸۳ کو امریکہ میں ہوئی جہاں میرے شوہر اپنی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے ۔ بیٹے کے پاس امریکی پیدائش کے باعث امریکی شہریت ہے۔ بیٹے نے ۱۰ سال کی عمر میں کراچی سے قرآن حفظ کیا اور جدہ والدین کے ہمراہ آنے کے اس کے بعد تیزی سے تعلیمی مدارج طے کئے اور اپنے بعد سعودی عرب سے سند لی۔ ساتھیوں سے پہلے میٹرک اور انٹر کیا ۔اس کے بعد سرسید یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجینیرنگ میں داخلہ لیا ۔لیکن۲۰۰۳ میں یونیورسٹی میں ہنگاموں میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا، پھر مجبوراً ۲۰۰۴ میں امریکہ تعلیم جانے سے پہلے بیٹے نے منگنی کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ کی خاطر بھیجنا پڑگیا۔ ۲۰۰۵ میں جدہ چھٹیوں پر آئے ممکن نہ تھا اس لئے اسے آئندہ سالوں تک ملتوی کیا۔ تو ان کا نکاح جدہ میں مقیم ایک نیک شریف اور پابندِ شرع گھرانے کی حسین، خوبصورت، اچھے قدوخال اور خوب سیرت لڑکی سے کر دیا گیا تاکہ ویزہ کی کاروائی شروع کی جاسکے۔ شادی سے پہلے بیٹے سے پوچھ لیا گیا تھا کہ اُن کی کوئی پسند وغیرہ تو نہیں جہاں وہ دو سال بات چلانا چاہتے ہوں۔ مگر بیٹے نے اِس بات پر کوئی پر زور بات نہیں کی۔ نکاح رہا اور اس دوران اِن دونوں کی فون پر بات چیت ہوتی رہی۔ درمیان میں ایک مرتبہ ۲۰۰۷ میں رخصتی ہوئی، وہ جدہ آئے تو ملاقات ہوئی اور تحفوں کا تبادلہ بھی رہا ۔ ۲۵ دن خوش و خرم طریقہ پر ساتھ رہے، پھر بیٹا امریکہ چلا گیا اور لڑکی کے امریکہ کی ۲۰۰۷ کے آخر میں بیٹے کی بنیادی تعلیم ختم ہونے کے بعد ویزے کی کاروائی چلتی رہی۔ انہوں نے اپنے والد سے ایک سال کے ...

    سوال:

    میرے بیٹے کی پیدائش ۲۸ جنوری ۱۹۸۳ کو امریکہ میں ہوئی جہاں میرے شوہر اپنی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے ۔ بیٹے کے پاس امریکی پیدائش کے باعث امریکی شہریت ہے۔ بیٹے نے ۱۰ سال کی عمر میں کراچی سے قرآن حفظ کیا اور جدہ والدین کے ہمراہ آنے کے اس کے بعد تیزی سے تعلیمی مدارج طے کئے اور اپنے بعد سعودی عرب سے سند لی۔ ساتھیوں سے پہلے میٹرک اور انٹر کیا ۔اس کے بعد سرسید یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجینیرنگ میں داخلہ لیا ۔لیکن۲۰۰۳ میں یونیورسٹی میں ہنگاموں میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا، پھر مجبوراً ۲۰۰۴ میں امریکہ تعلیم جانے سے پہلے بیٹے نے منگنی کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ کی خاطر بھیجنا پڑگیا۔ ۲۰۰۵ میں جدہ چھٹیوں پر آئے ممکن نہ تھا اس لئے اسے آئندہ سالوں تک ملتوی کیا۔ تو ان کا نکاح جدہ میں مقیم ایک نیک شریف اور پابندِ شرع گھرانے کی حسین، خوبصورت، اچھے قدوخال اور خوب سیرت لڑکی سے کر دیا گیا تاکہ ویزہ کی کاروائی شروع کی جاسکے۔ شادی سے پہلے بیٹے سے پوچھ لیا گیا تھا کہ اُن کی کوئی پسند وغیرہ تو نہیں جہاں وہ دو سال بات چلانا چاہتے ہوں۔ مگر بیٹے نے اِس بات پر کوئی پر زور بات نہیں کی۔ نکاح رہا اور اس دوران اِن دونوں کی فون پر بات چیت ہوتی رہی۔ درمیان میں ایک مرتبہ ۲۰۰۷ میں رخصتی ہوئی، وہ جدہ آئے تو ملاقات ہوئی اور تحفوں کا تبادلہ بھی رہا ۔ ۲۵ دن خوش و خرم طریقہ پر ساتھ رہے، پھر بیٹا امریکہ چلا گیا اور لڑکی کے امریکہ کی ۲۰۰۷ کے آخر میں بیٹے کی بنیادی تعلیم ختم ہونے کے بعد ویزے کی کاروائی چلتی رہی۔ انہوں نے اپنے والد سے ایک سال کے لۓ نوکری کے ذریعہ تجربہ حاصل کرنے کی اجازت لی۔ ۵مئی ۲۰۰۸ میں ستمبر ۲۰۰۷ سے بیٹے ایک اچھی آمدنی والی نوکری پر برسِ روزگار ہیں۔ ویزہ لگنے والے دن لڑکی کاامریکی ویزہ کا انٹرویو ہوا اور امریکہ کاویزا لگ گیا ۔ کے فوراً بعد بیٹے کا رویہ یکایک لڑکی کے ساتھ تبدیل ہوگیا اور فون کرنا اور وصول کرنا بند کر دیا ۔ یہاں تک کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ اور اپنے امریکہ میں رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہی رویہ رہا جسے سب ہی لوگوں نے بے حد محسوس کیا۔ جولائی ۲۰۰۸ میں جب جدہ آئے تو کہا کہ میں لڑکی کے ساتھ خوش نہیں ہوں: وجہ یہ بتائی کہ اس سے میری ذہنی مطابقت نہیں ہے (اسی لئے لڑکی کی امریکہ لیجانے کی بکنگ نہیں کرواکر آئے تھے)۔ اُن کے مطابق لڑکی سے انہیں کسی بھی قسم کی کوئی اور شکایت نہیں، نہ لڑائی، جھگڑا، بدکلامی ،وغیرہ ۔۔۔ کچھ نہیں، بس زیادہ سے زیادہ یہ کہتے لڑکی مناسب اور عام ذہنی ہیں کہ اُس کی موجودگی اور قربت سے اُنہیں وحشت ہوتی ہے۔ استطاعت کی ہے، اس نے بی اے کیا ہواہے اور حالیاً ایک اسکول میں تدریس کا کام کر ہمارے لڑکی کو ساتھ لیجانے کیلئے مجبورکرنےپرگو کہ اپنے ساتھ تونہ لے رہی ہے ۔ جانا سکے، مگر چونکہ اس کی واپسی کی بکنگ نہیں ملی اس لئے پہلے اکیلے چلے گئے بعد وہاں بیٹے، لڑکی کے میں لڑکی کو ہم نے تین ہفتوں کے بعد اکیلے امریکہ بھیجا ۔ جنوری ۲۰۰۹ میں ساتھ پانچ ماہ مکمل اجنبیوں کی طرح رہے، بچی انتہائی پریشان رہی ۔ دونوں جدہ آئے ۔بیٹے کی نیت یہ تھی میں اب اس کو ساتھ نہیں لے جاؤں گا ۔کہ وہ مزید اس کے ساتھ نہیں رہ سکتے لہٰذا اس کو چھوڑ کر جانے پر اصرار کیااور حسبِ عزم وہ اس بیٹے کہتے ہیں کہ بحیثیت مرد کے کو چھوڑ کرفروری کی ابتدائی تاریخوں میں چلے گئے۔ انہیں یہ حق ہے کہ اگر اُنہیں اپنی بیوی پسند نہ ہو تو وہ اُسے چھوڑ سکتے ہیں۔ اُس کے لۓ وہ سیدہ زینبؓ اور سیدنا زیدؓ، اور اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہؓ کی لونڈی ہم نے اِس مرتبہ بیٹے کی ملاقات جدہ کےچند بریرہؓ کا ذکر بطورِ جوازکرتے ہیں۔ علمأ سے بھی کروائی جنہوں نے مختلف حوالوں سےکہا کہ یہ وہ واحدعمل ہے کہ جو اللہ کو سخت ناپسند ہے اور اس کے لۓ پوری ذمہ داری سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ جس میں عدل کے تمام تقاضے پورے ہوں۔ إمام ابنِ تیمیہؒ کے مطابق جب تک اس کے لۓ پورے جواز نہ موجود اِس کے علاوہ بیٹے اور لڑکی کو مختلف شیوخ کے ہوں یہ عمل حرام تصور کیا جاۓ گا۔ پاس بھی لے جایا گیا جنہوں نے کہا کہ بیٹے پرحسد کے اثرات ہیں۔ کچھ دوسرے عاملوں نے اِس پر جادو کے اثرات کا بھی ذکر کیا۔ مگر یہ تمام باتیں ظنّی ہوتی ہیں اور اِن بیٹے نے امریکہ جاتے وقت والد کے بے حد پرشرعاً وثوق سے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ شدید دباؤ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ۳ سے ۴ ماہ میں امریکہ سے واپس آئیں گے اور لڑکی کے ساتھ ۳ ماہ بھرپور کوشش کے ساتھ اچھا وقت گزاریں گے۔ مگر اِس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ وہ ایسا کرے گا۔ والد نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اُس نے اس کے برخلاف البتہ لڑکی کے والد نے کچھ کیا تو پورا خاندان اُس سے لاتعلقی اختیار کرلے گا۔ امریکہ جاتے وقت بیٹے سے کہا تھا کہ وہ لڑکی کے بارے میں کسی دباؤ میں نہ رہے، اور سعودی عرب واپس آجاۓ پھر اِس معاملے کو افہام و تفہیم سے حسب منشأ حل کیا جاۓ گا۔ بیٹے نے اس موقعہ کو ضائع نہ کیا اور امریکہ پہنچنے کے تیسرے چوتھے دن لڑکی کے والد کو فون کر کہ کہا کہ کیونکہ آپ نے لڑکی کے معاملے میں اپنی طرف سے دباؤ سے آزادی کا بیٹے امریکہ میں جس شہر میں مقیم کہا تھا تو میری طرف سے آپ بھی اسے آزاد سمجھیں۔ ہیں وہاں کی اسلامی تنظیموں کے سرکردہ افراد میں جانے جاتے ہیں۔ نمازوں کی امامت، جمعہ اور عیدین کا خطبہ اور امامت، تراویح، وغیرہ کرواتے رہے۔ مگر کچھ عرصہ سے اِن سرگرمیوں میں کمی محسوس ہوتی ہے، بقول لڑکی کی پانچ ماہ کی روداد کے وہ دفتر سے واپسی پر زیادہ وقت دوستوں میں گزارتے تھے، باہر کھانا کھاتے تھے، گھر پر بھی ٹی وی اور انٹرنیٹ میں مصروف رہتے تھے۔ فجر کی نماز کی بروقت پابندی بھی نہیں تھی اور قراٰن کی تلاوت بھی نہیں؛ گزشتہ سال تراویح بھی پابندی سے نہ پڑھی، نہ پڑھائی۔ اُن کے دوستوں کا حلقہ اب بھی اچھے مسلمانوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر غیر پاکستانی ہیں ان تمام ضروری اور غالباً اور اُس کے اچھے اور مثالی کردار کی گواہی دیتے ہیں۔ کیا کوئی کسی نیک، شریف، باحیا،¤کچھ غیر ضروری تفصیلات کے بعداب سوال یہ ہے کہ: باشرع، خوبصورت اور بضاہراً بے نقص لڑکی کو صرف اس بنأ پر طلاق دے سکتا ہے کہ اس کی اگر کوئی فون پر لڑکی کے والد سے یہ کہ دے کہ آپ¤ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتی؟ کیا لڑکےمیری طرف سے اس کو آزاد سمجھیں تو کیا اس بات کی کوئی شرعی حیثیت ہوگی؟ کے والدین اور اعزّہ اس بات کے فیصلے میں کسی گناہ کے تو مرتکب نہ ہوں گے اگر وہ بیٹے کے مندرجہ بالا انتہائی قدم اُٹھانے پر اُس سے قطع تعلق کرلیں؟

    جواب نمبر: 11915

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتویٰ: 835=620/ھ

     

    اگر لڑکے (شوہر) نے اس نیت سے کہا تھا کہ جس طرح میں دباوٴ سے آزاد ہوں اسی طرح ، میری طرف سے آپ بھی اسے (بیوی کو) (دباوٴ سے) آزاد سمجھیں، تب تو کسی قسم کی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، اور اگر یہ نیت تھی کہ اُسے (بیوی کو) میرے نکاح سے آزاد سمجھیں تو ایسی صورت میں ایک طلاق واقع ہوگئی۔ پہلے آپ اپنے بیٹے (شوہر) سے رابطہ کرکے طلاق اور عدم وقوعِ طلاق کے معاملہ کو ایک طرف کرلیں بقیہ امور سے متعلق اس کے بعد معلومات کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند