• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 10271

    عنوان:

    ایک آدمی نے اپنی بیوی کو غصہ میں یہ کہا کہ میں نے تجھے طلاق دی، دی، دی۔ تو کیا یہ طلاق ایک بار مانی جائے گی یا تین بار مانی جائے گی، جب کہ اس نے طلاق لفظ ایک بار ہی کہا ہے؟ (۲)اگر یہ ایک بار مانی جائے گی تو کیا ایک بار کے کہنے سے ہی طلاق ہوجاتی ہے یا تین بار کہنا ضروری ہے؟

    سوال:

    ایک آدمی نے اپنی بیوی کو غصہ میں یہ کہا کہ میں نے تجھے طلاق دی، دی، دی۔ تو کیا یہ طلاق ایک بار مانی جائے گی یا تین بار مانی جائے گی، جب کہ اس نے طلاق لفظ ایک بار ہی کہا ہے؟ (۲)اگر یہ ایک بار مانی جائے گی تو کیا ایک بار کے کہنے سے ہی طلاق ہوجاتی ہے یا تین بار کہنا ضروری ہے؟

    جواب نمبر: 10271

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 75=75/ د

     

    طلاق کا صریح لفظ اگر کہا ہے تو اس سے طلاق پڑجائے گی نیت کرے یا نہ کرے ہرحال میں، جتنی مرتبہ طلاق دے گا اتنی مرتبہ پڑے گی اگر صرف ایک مرتبہ کہا ہے تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جس میں عدت کے اندر رجعت کا اختیار رہتا ہے اور بعد عدت وہ بائنہ ہوجائے گی، حاصل یہ کہ ایک مرتبہ سے بھی طلاق پڑجاتی ہے، تین مرتبہ کہنا ایقاعِ طلاق کے لیے ضروری نہیں ہے، تین مرتبہ کہے گا تو تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں طلاق دی، دی، دی میں اگر دی، دی کا لفظ محض تاکید کے لیے کہا ہے تو ایک طلاق پڑی ورنہ تینوں طلاق واقع ہوکر حرمت مغلظہ ہوجائے گی۔ تاکید کے لیے کہنے میں شوہر کا قول بحلف معتبر ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند