• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 10138

    عنوان:

    ہمارے ایک دوست کے بھائی ہیں ، خواجہ معین الدین جو فی الحال گھریلو مسائل سے بہت پریشان ہیں برائے مہربانی شریعت کی رو سے ان کی پریشانی کا حل بتادیں۔ وہ صاحب کاروبار کے لیے آٹھ آٹھ دن کے لیے سفر میں جاتے ہیں تو اسی دوران ان کی بیوی بدکاری کر بیٹھتی ہے۔ کسی طرح یہ بات انھیں معلوم پڑنے پر وہ اپنی بیوی کو بہت مارتے ہیں اور اس کو قسم دے کر پوچھنے پر وہ اپنی بدکاری کوقبول بھی کرلیتی ہے۔ تو پھر وہ صاحب بیوی سے علیحدگی اختیار کرکے پھر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیوی کو چھوڑ دیں کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کے تین چھوٹے بچے بھی ہیں جو فی الحال ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس صورت میں انھیں کیا کرنا چاہیے بیوی کو طلاق دیں، یا اس سے خلع لیں؟ یا پھر قانونی کاروائی چلائیں؟ یا پھر اس کی غلطی کو معاف کرکے اپنے نکاح میں رکھیں؟ اس بدکاری سے کیا نکاح باقی رہے گا؟ یا پھر کون سی تدبیر اختیار کی جائے؟ اگر طلاق یا جدائی ہوجائے تو بچے کس کے پاس رہیں گے؟ برائے مہربانی شریعت کے اعتبار سے جواب عنایت فرماویں۔

    سوال:

    ہمارے ایک دوست کے بھائی ہیں ، خواجہ معین الدین جو فی الحال گھریلو مسائل سے بہت پریشان ہیں برائے مہربانی شریعت کی رو سے ان کی پریشانی کا حل بتادیں۔ وہ صاحب کاروبار کے لیے آٹھ آٹھ دن کے لیے سفر میں جاتے ہیں تو اسی دوران ان کی بیوی بدکاری کر بیٹھتی ہے۔ کسی طرح یہ بات انھیں معلوم پڑنے پر وہ اپنی بیوی کو بہت مارتے ہیں اور اس کو قسم دے کر پوچھنے پر وہ اپنی بدکاری کوقبول بھی کرلیتی ہے۔ تو پھر وہ صاحب بیوی سے علیحدگی اختیار کرکے پھر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیوی کو چھوڑ دیں کسی بھی قیمت پر اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کے تین چھوٹے بچے بھی ہیں جو فی الحال ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس صورت میں انھیں کیا کرنا چاہیے بیوی کو طلاق دیں، یا اس سے خلع لیں؟ یا پھر قانونی کاروائی چلائیں؟ یا پھر اس کی غلطی کو معاف کرکے اپنے نکاح میں رکھیں؟ اس بدکاری سے کیا نکاح باقی رہے گا؟ یا پھر کون سی تدبیر اختیار کی جائے؟ اگر طلاق یا جدائی ہوجائے تو بچے کس کے پاس رہیں گے؟ برائے مہربانی شریعت کے اعتبار سے جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 10138

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 124=124/ ھ

     

    خواجہ معین الدین صاحب کو چاہیے کہ وہ بیوی کو اپنے پاس ہی رکھیں، حسن معاشرت سے رہن سہن کا نظام بنائیں، ابھی ان کا نکاح علی حالہ باقی ہے، طلاق ہرگز نہ دیں، البتہ اگر کبھی کچھ عرصہ کے لیے باہر جانا ہو تو اپنی بہن یا والدہ یا بیوی کی والدہ کو اس کے پاس رکھ کر جائیں، تاوقتیکہ ایسا انتظام اطمینان بخش نہ ہو، حتی المقدرت بیوی کو چھوڑکر باہر نہ جائیں، خواہ ذرائع آمدنی میں کچھ کمی بھی ہوجائے، مگر اس کو برداشت کرلیں، اور بیوی سے جو کچھ ہوگیا اس کا ذکر و تذکرہ بھی کسی سے نہ کریں، اپنے گھر میں بیوی بچوں کو کچھ وقت مثلاً آدھ گھنٹہ مقرر کرلیں اس میں سب کو بٹھلاکر بہشتی زیور فضائل اعمال سننے سنانے کانظام بنائیں، گھر میں سے فحش تصاویر ٹی وی وغیرہ جیسی چیزیں نکال دیں، نمازِ نفل تلاوت وغیرہ کا گھر میں کثرت سے اہتمام رکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند