• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 69191

    عنوان: والدین کی طرف سے مجبور کیا جائے تو کیا طلاق دینا جائز ہے ؟

    سوال: پس منظر: میری شادی ہوئے ایک سال ہوا ، شادی کے کچھ ہی مہینوں کے بعد میرے سامنے بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ، والدین کی پسند کی لڑکی سے میری شادی ہوئی تھی، میں نے والدین کی مرضی کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا ، چونکہ میں ان کی پسند کو ترجیح دیتاہوں۔ کچھ مہینوں کے بعد میں نے دیکھا کہ میر ی والدہ میری بیوی کو اس کی درخواست کرنے کے باوجود گھریلو کام کاج میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھیں، جب کہ والد کا معا ملہ دوستانہ تھا۔ شادی کے صرف دو مہینے بعد والدہ مجھ سے میری بیوی کے بارے میں شکایت کہ وہ گھر کے کام میں مدد نہیں کررہی ہے ۔ میں نے بیوی سے کہ کیا اگر گھر کے کام میں والدہ کی مدد کرسکتی ہو تو میں تمہارا حسانمند ہوں گا،اس پر بیوی نے جواب دیا کہ آپ کی والدہ مجھے کچن میں جانے کی اجازت نہیں دیں گی، جب کہ میں اس بات سے واقف تھا ، لیکن پھر بھی میں نے بیوی سے اصرار کیا ۔ والدہ کی عمر ۶۵ سال ہے اور میں اکلوتا بیٹاہوں اور تین بہنوں کے بعد میں سب سے چھوٹا ہوں۔ شادی کے چار مہینے کے بعد والدہ نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تم اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دو اور وہ اب ہمارے گھر میں نہیں رہے گی، میں نے وجہ پوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ محرم کے پہلے ہفتے میں تمہیں وجہ بتائی جائے گی، مجھے اس بات پر شک ہوا، چونکہ میں نے بہت سفر کیا ہے اور مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا ہے ،اس کے باوجود میں نے منفی خیالات کو نظر انداز کردیا اور بیوی کو میکے بھیجنے کی وجہ بتانے پر اصرار کیا ، مگر مجھے جواب نہیں ملا۔ والدین کی بات مانتے ہوئے میں نے بیوی سے کہا کہ اپنے گھرجا کر کچھ دن رہو ۔ میری بیوی ک والد کا انتقال جوانی میں ہی ہوگیاہے ۔ وہ یہ بات مان گئی اور میں نے اس کو جانے کی وجہ نہیں بتائی۔ بیوی اپنے میکے دس دن رہی اور پھر میں اس کو واپس لے آیا اور اس سے درخواست کی کہ گھر کے کام میں میری والدہ کی مدد کرکے مجھ پر احسان کرے ۔ دوبارہ پھر والدہ نے اس کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی،میں نے وجہ پوچھی تو پھر کہا گیا کہ محرم کے پہلے ہفتے میں بتائی جائے گی ۔ خلاصہ یہ کہ میری بیوی کو میرے کمرے تک محدود کردی گئی ، حتی کہ میری عدم موجودگی میں میری ڈیوٹی کے وقت بھی اس کو میرے کمرے سے باہر پانی پینے تک کے لئے نکلنے سے منع کردیا گیا ۔ میراکام بہت سخت تھا، روزانہ چار پانچ گھٹنے آفس سے گھر تک کا سفر کرنا پڑتا تھا، اس وجہ سے میں رات کو دس گیارہ بجے گھر آتاتھا اور صبح سات بجے چلا جاتاتھا اور گھر پہنچنے پر مجھے والدہ کی طرف شکایتوں کی لسٹ ملتی اور پھر میں ان کو مطمئن کرکے صبر کرنے کے لیے کہتا، لیکن والدہ کی درخواست مجھ سے صرف یہ تھی کہ میں بیوی کو اس کے میکے چھوڑدوں، اس پر میں نے عمل بھی کیا، اور پھر دوبارہ دس دن کے لیے بیوی کو اس کے میکے چھوڑ آیا ، اس وجہ سے میں بیوی کے ساتھ عید الاضحی بھی نہیں مناپایا۔ میری بیوی کے گھروالوں نے مجھے فون کیا کہ کیا کوئی مسئلہ ہے جو اس کو یہاں چھوڑا ہے ؟اس پر مجھے شرم آگئی اور کہا کہ الحمد للہ، سب ٹھیک ہے ، صرف اللہ پر بھروسہ رکھیں ، وہ سب کچھ جانتاہے ۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے مسائل بڑھ گئے ، ایک تو سسرا ل والوں کی وجہ معلوم کرنے اور دوسرا میری نئی ملازمت اور سفر کرنے کی وجہ سے میں دباوَ میں رہنے لگا۔ بالآخر ، حالات سے تنگ آکر ایک دن میں نے غصے میں والدین سے کہدیا کہ اس مسئلہ کو فوراً حل کریں، اس پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ہم کچھ نہیں کرسکتے ،، اس بات سے میں بہت لاچار ہوگیا اور دباوَ میں رہنے لگا۔ محرم کے پہلے ہفتے میں میری بہن نے مجھے بتایا کہ وہ (میری بیوی ) کچھ کالا جادو کا کام کرتی ہے اور ہم نے لاہورکے ایک عامل سے جانکاری حاصل کی ہے ۔ میں نے فوراً قریبی عالم دستوں کو فون کیا اور اس بارے میں بات کی ، ان دوستوں کی درخواست پر میں نے کچھ عالموں اور ایک مفتی صاحب سے ملاقات کی جن کو اس بارے میں کچھ معلومات ہیں تو ان سب نے مجھے کسی عامل سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا ۔ایک عامل سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے یہ نییجہ ملا کہ کالے جادو کی بات جھوٹ ہے ، اور الحمد للہ، مجھ پر کوئی اثر نہیں ہے ، نہ میری بیوی نے مجھ پر کالا جادو کیا ہے اور نہ ہی اس کے گھروالوں نے ایسا کیا ہے ۔تاہم ، مجھے بتایاگیا کہ روازنہ قرنی آیات پڑھنے سے شیطان دو ر ہوجاتاہے اور یہ سب شیطانی کام ہیں۔ میں نے اپنے گھروالوں سے اس بارے میں وضاحت کی اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے میں نے گھر کے بڑوں کو بلایا ، مگر مجھے بار بار یہی کہاگیا کہ طلاق دیدو۔جب کہ میں نے گھروالوں کو بار بار کہا کہ بیٹھ کر بات کریں مگر انہوں نے ہر میٹنگ کو کینسل کردیا، ان کے خیال میں مجھ پر جادو کردیاگیاہے ۔ میں نے واضح کیا کہ اللہ کی نگاہ میں طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اور بغیر کسی جائز وجہ کے میں طلاق نہیں دے سکتا۔اور وجہ صرف شک کا معاملہ تھا۔میری بیوی کالے جادو کے حرام عمل ملوث ہے ،اس لیے میں طلاق نہیں دے سکتا۔ اس بارے میں نے ایک مفتی صاحب سے مشورہ کیا کہ کیا اس بنیاد پر طلاق دینا درست ہے ؟ تو انہوں نے منع کردیا ۔ گھر میں مجھے بتایا گیا کہ جب تک طلاق نہیں دو گے کوئی تم سے بات نہیں کرے گا۔ میں نے دوبارہ ایک مفتی صاحب سے بات کی جو عامل بھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ سب شیطانی باتیں ہیں اور کچھ نہیں ہے ۔ میں نے مفتی صاحب سے گھروالوں کی شک بنیاد پر طلاق دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی جائز وجہ نہیں ہے ۔ ایک دن میرے والدین نے مجھے بتائے بغیر گھر سے چلے گئے اور ایک بہن کے یہاں رہنے لگے ہمیشہ کے لیے مجھ سے بات کرنے کے لیے بچنے کے لئے ۔ میں نے کچھ ہفتے تک دن بھر فون کرتا رہا ، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میری بہن کے ڈرائیور نے بتایا کہ آپ کے والدین آپ کی بہن کے گھر ہیں۔ میری تینوں بہنوں نے تمام رشتہ داروں کو بتادیاہے کہ وہ یعنی میری بیوی، جادو گر ہے اور مجھ پر اس کا اثر ہوگیاہے ۔ میں نے والدین سے بار ہا ملنے کی کوشش کی مگر انہوں نے مجھ سے بات کرنے سے منع کردیا اور پھر میری بات نہ سنی جانے پر میں نے اپنے اوپر ملامت کرنے لگا۔ میرے والدین شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور انہوں نے اپنا گھر بیچ دیاہے ، میں یہ دعوی نہیں کرتاہوں کہ یہ میری جائداد ہے یا میں اس میں میرا حصہ ہے ۔ مجھے اللہ پر یقین ہے اور وہی دینے والا ہے ۔ میں نے اپنے آفس کے قریب ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا ہے اور یہیں میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتاہوں۔ اب تک میں نے بیوی کے اندر کوئی غلط چیز نہیں پائی ہے ۔اب شادی کے ۱۳ مہینے ہوچکے ہیں، وہ ، ماشاء اللہ، باعمل خاتون ہے ، اس کے روزانہ تلاوت کرنے کی وجہ سے میں بھی پابندی سے تلاوت کرنے لگا ہوں،مگر میرے گھروالے چھ مہینے سے مجھ سے بات نہیں کررہے ہیں، لیکن جب بھی میں والدین کو موبائل میں موجود پاتاہوں ، ان سے بات کرتاہوں، لیکن وہ ہمیشہ مجھے دہائی دیتے ہیں۔ میں نے والد صاحب سے کہا تھا کہ میں ان کو حج کے لیے لے جانا چاہتاہوں اور سارا خرچ میں دو ں گا اور ان کی دیکھ ریکھ کرں گا جس پر وہ راضی ہوں، اس پر تیار ہوگئے مگر اگلے دن انہوں نے منع کردیا ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟میں والدین کے بنا نہیں رہ سکتا اور وہ صرف چاہتے ہیں میں اپنی بیوی کو طلاق دیدوں ۔ ان کی طرف سے ایسی وجہ پر جس کو ثابت ممکن نہیں ہے طلادینے میں مجھے اچھا نہیں لگتاہے ، میں واقعی اپنے والدین سے محبت کرتاہوں مگر میری بہنیں والدین سے ملاقات میں مسلسل رکاوٹ پیدا کررہی ہیں۔اب مجھ پر الزام لگایا جارہاہے کہ میں نے والدین کو گھر سے باہر نکال دیاہے اور یہ کہ میں نے جائداد بیچوانے میں ان کو مجبور کیا ہے ۔ صرف اللہ جانتاہے کہ میں نے کس طرح والد اور والدہ کی بیماری میں ان کا خیال رکھا ہے ۔اللہ بہتر جانتاہے کہ روزانہ کتنی مرتبہ میں اللہ سے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کرتاہوں۔اللہ جانتاہے کہ میں اپنے والدین سے کتنی محبت کرتاہوں۔ والدین سے بات ہونے پر میں روزانہ روتاہوں۔ میں نے لندن سے اپنی ملازمت ، کیرئر، مکان اور پرسکون زندگی چھوڑ کر آگیا صرف اس لیے کہ میرے والد نے مجھے پاکستان واپس بلالیا تھا۔مجھے اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کی طرف سے جن کو یہ بھی نہیں پتا کہ کیا ہواہے ، ایس ایم ایس مل رہاہے کہ تم پر ہمیشہ لعنت ہو ، والدین کو روزانہ فون کرنے اور معافی مانگنے کے باوجود وہ مجھ سے بات کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ کچھ واقعات ایسے ہوئے ہوں گے جو میری بیوی سے غلطی سے ہوگئے ہوں ۔ اور کچھ ایسے حالات بھی پیش آئے ہوں گے جن میں مجھے بہت زیادہ غصہ آگیا ہوگا۔ میں مکمل طورپر ٹوٹ چکا ہوں۔ براہ کرم، میری مدد کریں۔ مجھے نہیں پتا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان وجوہات کی وجہ سے میں اپنی بیوی کو طلاق دے سکتاہوں؟جزاک اللہ ۔

    جواب نمبر: 69191

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1078-1072/H=10/1437 آپ نے جو حالات و معاملات لکھے ہیں ان کے پیش نظر شریعت کا حکم یہی ہے کہ طلاق ہرگز نہ دیں البتہ والدین اور بہنوں کے ساتھ نرمی و محبت کا معاملہ وابستہ رکھیں حکمت و بصیرت کے ساتھ ان کی طرف سے تلخیوں کے باوجود سمجھاتے رہیں یا اعزہ اقرباء میں سے کچھ بااثر معاملہ فہم حضرات کو تمام باتیں سمجھا کر بیچ میں ڈال دیں تاکہ وہ حضرات والدین سے گفتگو کرکے حسن معاشرت سے آپ کے ساتھ گذر بسر پر آمادہ ہوجائیں والدین بہنوں کے حق میں خصوصی دعاوٴں کا اہتمام بھی جاری رکھیں جسمانی و مالی خدمت بھی حسبِ موقعہ انجام دیتے رہیں ان شاء اللہ کوئی سبیل پریشانیوں سے نجات کی اللہ پاک پیدا فرمائے گا والدین کو بھی اللہ تعالی فہم سلیم عطاء فرمائے آمین ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند