• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 66622

    عنوان: غسل کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ غسل کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اور کیا غسل کرنے کے بعد وضو کرنا پڑے گا جب کہ غسل میں صرف غسل کے فرائض پورے کئے جائیں؟

    جواب نمبر: 66622

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 893-844/sd=10/1437

     غسل کا مسنون طریقہ مختصراً یہ ہے کہ اولاً ہاتھ اور شرم گاہ دھوئے، پھر پورا وضو کرے، اسی درمیان منہ اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالے، اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہائے۔ اور بہتر ہے کہ اولاً دائیں کندھے پر، اس کے بعد بائیں کندھے پر اور پھر سر پر پانی ڈالے اور بدن کو رگڑ کر دھوئے۔ اگر غسل کے فرائض پورے کیے جائیں، تو غسل کے بعد وضو ء کرنا ضروری نہیں ہے، ہاں غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے۔ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن خالتہ میمونة قالت: وضعت للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غسلاً یغتسل بہ من الجنابة، فأکفأ الإناء علی یدہ الیمنی، فغسلہا مرتین أو ثلاثاً، ثم صب علی فرجہ فغسل فرجہ بشمالہ، ثم ضرب بیدہ الأرض فغسلہا ثم تمضمض واستنشق وغسل وجہہ ویدیہ ثم صب علی رأسہ وجسدہ، ثم تنحی ناحیة فغسل رجلیہ۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارة / باب في الغسل من الغسل ۱/۳۲ رقم: ۲۴۵ دار الفکر بیروت، فتح الباري ۱/۴۸۶ رقم: ۲۵۷ بیروت)عن جمیع بن عمیر وفیہ فقالت عائشة رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتوضأ وضوئہ للصلاة ثم یفیض علی رأسہ ثلاث مرار۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارة / باب الغسل من الجنابة ۱/۳۲ رقم: ۲۴۱ دار الفکر بیروت)وہي أن یغسل یدیہ إلی الرسغ ثلاثاً ثم فرجہ ویزیل النجاسة إن کانت علی بدنہ ثم یتوضأ وضوئہ للصلاة إلا رجلیہ، ہٰکذا في الملتقط۔ (الفتاویٰ الہندیة ۱/۱۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند