عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 65846
جواب نمبر: 65846
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 869-872/N=9/1437
آپ نے بیوی سے ملاعبت کے دوران اس کی شرمگاہ میں انگلی ڈالی اور وہ تر ہوگئی تو یہ بظاہر بیوی کی مذی سے تر ہوئی؛ کیوں کہ ملاعبت کے درمیان عام طور پر مرد اور عورت کو مذی آہی جاتی ہے بالخصوص جب مرد عورت کی شرمگاہ میں انگلی داخل کردے۔ مرد یا عورت کی مذی بالاتفاق ناپاک؛ بلکہ نجاست غلیظہ ہے۔ اور اگر یہ مذی نہ ہو؛ بلکہ لیکوریا کا پانی ہو تو وہ بھی ناپاک ہے، اور اگر فرج داخل کی رطوبت ہو تو صاحبین کے نزدیک وہ بھی ناپاک ہے اور بر بنائے احتیاط اسی قول پر فتوی ہے؛ اس لیے آپ نے بیوی کے لباس میں جس جگہ انگلی پوچھی، لباس کا وہ حصہ ناپاک ہوگیا، اگر اس کی مقدار پھیلاوٴ میں ایک روپے سے زائدہوتو آپ کی بیوی اس کپڑے میں نماز نہیں پڑھ سکتی، اور اگر اس سے کم ہو اور کپڑے کا کوئی اور حصہ ناپاک نہ ہو تو اس کپڑے میں کراہت کے ساتھ نماز ہوسکتی ہے، البتہ اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ کپڑے تبدیل کرلیے جائیں یا کم از کم ناپاک حصہ دھودیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے تاکہ نماز کا پورا ثواب ملے، اس میں کوئی کمی واقع نہ ہو (امداد الفتاوی مع حاشیہ۱: ۱۰۷-۱۲۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)، و لا عند مذي أو ودي بل الوضوء منہ ومن البول جمیعاً علی الظاہر (در مختار مع شامی ۱: ۳۰۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)، وعفا الشارع عن قدر درھم ……وھو مثقال عشرون قیراطاً في نجس کثیف لہ جرم وعرض مقعر الکف، …… في رقیق من مغلظة کعذرة آدمي، وکذا کل ما خرج منہ موجبا لوضوء أو غسل مغلظ الخ (در مختار مع شامی ۱: ۵۲۰- ۵۲۳)، والأقرب أن غسل الدرھم وما دونہ مستحب مع العلم بہ والقدرة علی غسلہ فترکہ حینئذ خلاف الأولی، نعم الدرھم غسلہ آکد فترکہ أشد کراھة کما یستفاد من غیرما کتاب من مشاھیر کتب المذھب الخ (شامی ۱: ۵۲۰، ۵۲۱)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند