• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 62604

    عنوان: میرے والد جو ایک سڑک حادثہ میں زخمی ہوگئے تھے رفع حاجت کے بعد ٹھیک طرح سے استنجاء نہیں کرسکتے ؟ وہ نماز کیسے ادا کرسکتے ہیں؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    سوال: میرے والد جو ایک سڑک حادثہ میں زخمی ہوگئے تھے رفع حاجت کے بعد ٹھیک طرح سے استنجاء نہیں کرسکتے ؟ وہ نماز کیسے ادا کرسکتے ہیں؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 62604

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 102-102/Sd=3/1437-U ًاگر آپ کے والد خود استنجاء کرنے پر قادر نہیں ہیں، تو آپ کی والدہ کو چاہیے کہ وہ استنجاء کرا دیا کریں، اگر والدہ نہ ہوں اور سترِ عورت کے ساتھ آپ کے لیے یا کسی دوسرے شخص کے لیے استنجاء کرانا ممکن ہو، مثلا: پانی آپ ڈال دیں اور والد صاحب خود سے استنجاء کرلیں تو ایسی صورت میں آپ یا کوئی دوسرا شخص استنجاء کرادے، ورنہ والد صاحب خود سے جتنا بھی ممکن ہوسکے استنجاء کر کے نماز پڑھ لیں، کوشش کے باوجود اگر پوری طرح پاکی حاصل نہیں ہوپائی، تب بھی نماز ہوجائے گی، مریض کے لیے فقہائے کرام نے گنجائش دی ہے۔ قال الحصکفي: فلو مشلولة، ولم یجد ماء جاریاً ولا صاباً، ترک الماء، ولو شلتاسقط أصلاً کمریض و مریضة لم یجدا من یحل جماعہ۔ قال ابن عابدین: قولہ: (ولا صاباً) أما لو وجد صاباً کخادم وزوجة لا یترکہ کما في الامداد۔ قولہ: (سقط أصلاً) أي بالماء والحجر۔ قولہ: (کمریض الخ) في التتارخانیة: الرجل المریض اذا لم تکن لہ امرأة ولا أمة ولہ ابن أو أخ وہو لایقدر علی الوضوء۔ قال: یوضئہ ابنہ أو أخوہ غیر الاستنجاء، فانہ لایمس فرجہ ویسقط عنہ والمرأة المریضة اذا لم یکن لہا زوج، وہي لا تقدر علی الوضوء، ولہا بنت أو أخت، توضئہا، ویسقط عنہا الاستنجاء۔۔۔ ولا یخفی أن ہذا التفصیل یجري فیمن شلت یداہ؛ لأنہ في حکم المریض۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۳۴۱، فصل في الاستنجاء، ط: دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند