• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 609264

    عنوان:

    پیشاب کے قطرات سے متعلق چند ضروری احکام

    سوال:

    میرا سوال آپ کی خدمت میں یوں عرض ہے کہ میں اپنی محلے کی مسجد میں امامت کرتا ہوں۔ میرے ساتھ کہی مہینوں سے ایک مسلہ درپیش آرہا ہے کہ جب میں فجر کی اذان کے بعد نماز پڑھانے کے عرض سے اُٹھتا ہوں تو اچھی طرح استنجاء کرنے کے بعد میں کھڑا ہوتا ہو اور پھر شرم گاہ کو دباتا ہو تاکہ کوئی قطرہ باقی نہ رہے لیکن جب میں دباتا ہوں تو دبانے سے تھوڑی سے مذی نکل آتی ہے (تو کیااس صورت میں پھر سے استنجاء کرنی کی حاجت ہے یا نہیں)۔ اور تو اور پھر جب مسجد میں نماز پڑھانے کے وقت یا سنت ادا کرتے ہوئے یہی وسوسہ آتا ہے کہ کہیں اور مذی نہ نکلی یا قطرے کا خیال آتا ہے ۔اور جب مسجد کے غسل خانے میں دیکھتا ہوں تو اکثر اوقات میں کچھ نہ ہوتا ہے اور کبھی کبھار تھوڑا سی (سوئی کی نوک کی مقدار سے ذرا زیادہ ) ہوتی ہے ۔ تو اس وقت وضو کا کیا حکم ہوگا اور نماز کا اور کبھی کبھار کچھ نہیں اور اگر پھر سے اس وقت شرم گاہ کو دباتا ہوں تو بہت تھوڑی سی مقدار میں (جو قطرے سے بھی کم ہو) باہر نکل آتی ہے خالی شرم گاہ دبانے پر اور اگر نہ دباؤ صرف دیکھ لو تو شرم گاہ کے اندر تری ہوتی ہے اور خود باہر نہیں آتی ہے تو اس صورت میں کیا شرعی حکم ہو گا مہربانی کرکے ہر ایک پہلو میں رہنمائی فرمائیں خصوصاً امامت کے حوالے سے ۔

    جواب نمبر: 609264

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 398-158/TD-Mulhaqa=7/1443

     آپ نے سوال میں جو تفصیل لکھی ہے، اس بارے میں ہم چند ضروری احکام لکھتے ہیں:

    (الف)آپ کے لیے استنجے میں استبراء ضروری ہے، یعنی اس بات سے اطمینان کر لینا کہ پیشاب کے قطرے آنا بند ہوگئے ہیں، ضروری ہے ،فقہائے کرام نے اس کے مختلف طریقے بیان کیے ہیں ، مثلاً : کھنکارنا، وغیرہ ؛ لیکن کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ طبیعت کا مطمئن ہوجانا اصل ہے، آپ ڈھیلا یا ٹشو پیپر ضرور استعمال کریں،بعض آدمی باوجود اس کے کہ قطرہ کا اندیشہ ہے، فوراً صرف پانی سے استنجا کرلیتے ہیں ، اگر قطرات کپڑے میں لگتے لگتے مقدارِ معفو عنہ سے بڑھ گئے ، تو ایسے کپڑے میں نماز نہیں ہوگی ، اگرچہ ہر بار وضو کر کے نماز پڑھی جائے۔(نور الایضاح، ص:۲۹، مکتبہ بلال، دیوبند، حاشیۃ الطحطاوی،ص:۴۳، اشرفیہ، دیوبند)

    (ب) اگر استبراء کے بعد بھی قطرات کی شکایت رہتی ہے، تو استنجے کے بعد عضو پر کوئی کپڑا یا ٹشوپیپر وغیرہ لگالیا کریں اور جب قطرات آنے بند ہوجائیں اورپوری طرح یقین ہوجائے تو طہارت حاصل کرکے وضوء کرلیا کریں۔

    (ج) بہتر یہ ہے کہ آپ نماز سے عین قبل پیشاب نہ کیا کریں؛ بلکہ اتنی دیر پہلے استنجے سے فارغ ہوجایا کریں کہ اچھی طرح طہارت حاصل کرنے کا موقع مل جائے ۔

    (د) پاکی حاصل کرنے کے بعدپیشاب کی نالی میں تری موجود ہونا طہارت کے لیے مانع نہیں ہے؛البتہ اگر نالی کے آخری سرے پر پیشاب کا قطرہ ظاہر ہوجائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، پس اگر کسی نے پیشاب کی نالی کو دبایا اورپیشاب کا قطرہ نالی کے سرے پر ظاہر ہوگیا یا کپڑے، ٹشو یا ہاتھ وغیرہ پر تری لگ گئی تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز کی حالت میں ایسا ہونے سےنماز بھی فاسد ہوجائے گی۔

    (ھ) پیشاب یا مذی کا قطرہ ظاہر ہونے کی صورت میں پاکی حاصل کرلینے چاہیے۔

    (و) قطرات کے سلسلے میںبلا وجہ زیادہ شک و شبہ میں بھی نہیں پڑنا چاہیے،جب تک قطرے آنے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو ، محض شک کی بنا پر بار بار استنجا اور وضو نہیں کرنا چاہیے ،اس میں وسوسے کی بیماری لگ سکتی ہے۔

    قال الحصکفی: ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور۔ قال ابن عابدین: (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لا ينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط( الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۱۳۵، دار الفکر، بیروت )قال الحصکفی: يجب الاستبراء بمشي أو تنحنح أو نوم على شقه الأيسر، ويختلف بطباع الناس۔ قال ابن عابدین: (قوله: يجب الاستبراء إلخ) هو طلب البراءة من الخارج بشيء مما ذكره الشارح حتى يستيقن بزوال الأثر. وعبر بالوجوب تبعا للدرر وغيرها، وبعضهم عبر بأنه فرض وبعضهم بلفظ ينبغي وعليه فهو مندوب كما صرح به بعض الشافعية، ومحله إذا أمن خروج شيء بعده فيندب ذلك مبالغة في الاستبراء أو المراد الاستبراء بخصوص هذه الأشياء من نحو المشي والتنحنح، أما نفس الاستبراء حتى يطمئن قلبه بزوال الرشح فهو فرض وهو المراد بالوجوب، ولذا قال الشرنبلالي: يلزم الرجل الاستبراء حتى يزول أثر البول ويطمئن قلبه. وقال: عبرت باللزوم لكونه أقوى من الواجب؛ لأن هذا يفوت الجواز لفوته فلا يصح له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال الرشح. اهـ.(قوله: أو تنحنح) لأن العروق ممتدة من الحلق إلى الذكر وبالتنحنح تتحرك وتقذف ما في مجرى البول. اهـ. ضياء. (قوله: ويختلف إلخ) هذا هو الصحيح فمن وقع في قلبه أنه صار طاهرا جاز له أن يستنجي؛ لأن كل أحد أعلم بحاله ضياء.قلت: ومن كان بطيء الاستبراء فليفتل نحو ورقة مثل الشعيرة ويحتشي بها في الإحليل فإنها تتشرب ما بقي من أثر الرطوبة التي يخاف خروجها، وينبغي أن يغيبها في المحل لئلا تذهب الرطوبة إلى طرفها الخارج، وللخروج من خلاف الشافعي. وقد جرب ذلك فوجد أنفع من ربط المحل لكن الربط أولى إذا كان صائما لئلا يفسد صومه على قول الإمام الشافعي.۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۳۴۴، ۳۴۵، دار الفکر، بیروت(


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند