• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 608867

    عنوان:

    شرم کی وجہ سے تیمم کرنا

    سوال:

    ان دنوں ہمارے یہاں شدید سردی چل رہی ہے۔ صبح کے وقت پانی جما ہواہوتا ہے۔ مرد تو بہر حال کسی طرح غسل کر لیتا ہے۔مگر عورتوں کے غسل کا انتظام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ گھر میں دوسرے افراد کی موجودگی میں پانی گرم کرنے میں شرماتی ہیں۔نیز اگر گرم پانی ملے بھی تو کچھ عورتوں کو ٹھنڈ موسم کی وجہ سے ایکس پوجر (دقت )ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اگر ان پر غسل فرض ہو جا? تو کیا وہ تیمم کر سکتی ہیں؟

    جواب نمبر: 608867

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:323-114/TD-Mulhaqa=6-1443

     محض شرم کی وجہ سے تیمم کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہے، شرعی احکام میں شرم نہیں کرنی چاہیے، لہٰذا اگر عورت پرغسل فرض ہوجائے اور وہ غسل پر قادر ہو خواہ اس کے لیے گرم پانی کرنا پڑے تو عورت کے لیے غسل کرنا ضروری ہوگا، تیمم کرنا کافی نہیں ہوگا ؛ ہاں اگر گرم پانی کے ذریعے بھی غسل کرنے پر بیمار ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر تیمم کی گنجائش ہوگی، واضح رہے کہ بیماری کے سلسلے میں محض احتمال کا اعتبار نہیں ہے؛بلکہ بیماری کا قوی اندیشہ شرط ہے اور قوی اندیشہ کی بنیاد تین امور میں سے کوئی ایک امر ہونا چاہیے: یا تو ماہر مسلمان طبیب کی رائے ہو یا سابقہ تجربہ ہویا بیماری کی کچھ علامتیں ظاہرہوں۔

    قال الحصکفی: (أو برد) یہلک الجنب أو یمرضہ ولو فی المصر إذا لم تکن لہ أجرة حمام ولا ما یدفئہ۔ قال ابن عابدین: (قولہ ولا ما یدفئہ) أی من ثوب یلبسہ أو مکان یأویہ. قال فی البحر: فصار الأصل أنہ متی قدر علی الاغتسال بوجہ من الوجوہ لا یباح لہ التیمم إجماعا۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۲۳۴/۱ دار الفکر، بیروت ) قال السندی: أو لمرض، أی: یبیح المرض التیمم بشرط أن یغلب علی ظنہ أنہ لو توضأ أو اغتسل یحصل لہ مرض ابتداء أو ہو مریض فی الأصل لکن بسبب وضوئہ یشتد مرضہ بأن یعظم کیفا أو یمتد بأن یزید کما وذلک إما لعدم ملایمة الماء لدائہ کمن بہ جراح أو جدری وعلم ذلک بغلبة ظن عن إمارة أو تجربة أو قول طبیب حاذق مسلم غیر ظاہر الفسق وقیل عدالتہ شرط کما فی غنیة المستملی، فخرج غیر الحاذق وغیر المسلم، فلا یعمل بقولہما وقولہ ولو بتحرک متعلق بیشتد أو یمتد لأن التحرک قد یکون سببا فی الامتداد کما یکون سببا فی الاشتداد، یعنی لو کانت الحرکة لذلک تضرہ کالمبطون و من بہ العرق المدین، جاز لہ أن یتیمم لعجزہ حکما.( طوالع الانوار: ۲۵۲/۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند