• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 607818

    عنوان: فرش کس طرح پاک کیا جائے ؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ جب سیمینٹید فرش یا ٹئل۔ والے فرش پر کوئی نجاست لگ جائے تو اسکو پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کیا اس پر ایک بار پانی ڈال دیا پھر جبکہ وہ گیلا ہی ہے دوبارا اس پر پانی ڈال دیا پھر جبکہ وہ گیلا ہی ہے پھر سے اس پر پانی ڈال دیا تو کیا اس طرح پاک ہو جائے گا ؟یہ جو ہم نے تیسری بار پانی ڈالا ہے کیاوہ پاک ہے یا پھر وہ سوکھنے پر پاک ہو گا ؟ جب ہم نے تیسری بار پانی ڈالا پھر ہمارے پاؤں میں وہ پانی لگ گیا تو کیا ہمارا پاؤں نجس ہو گیا۔ اور جہاں جہاں ہمارے پاؤں سے پانی لگ گیا کیا وہ بھی نجس ہو جائیگا ؟ اگر ایسا ہے تو ہم وائپر کیسے کریں گے ؟ یا پھر اس پر ایک ہی بار بہت زیادہ پانی ڈال دیں گے تو کیا وہ پاک ہو جائے گا؟ اور کتنا زیادہ پانی ہونا چاہیے ؟ اور اس پانی کا بھی کیا حکم ہے ؟

    امید ہے میں آپ کو اپنی بات سمجھا پائی ہوں گی، برائے مہربانی تسلی بخش جواب دے دیں ۔ اور اگر اس معاملہ مجھ سے کوئی بات چھوٹ گئی ہے مجھے وہ بھی بتا دیں تاکہ مجھے اس کا پورا علم ہو جائے اور اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اس پر بھر پور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ، جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 607818

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:246-117T/B-Mulhaqa=5/1443

     فرش اگر اس نوعیت کا ہے کہ اس میں پانی جذب ہونے کی صلاحیت ہے تو خشک ہونے اور نحاست کے اثر زائل ہونے سے پاک ہوجائے گا یعنی اس پر نماز پڑھنا جائز ہوگا ؛ البتہ اس پر ہاتھ مارکر تیمم کرنا جائز نہ ہوگا ،اگر فرش چکنا ہے کہ پانی اس میں جذب نہیں ہوسکتا تو پھر خشک ہونے سے پاک نہ ہوگا؛ بلکہ دھونا ضروری ہوگا ۔اگر تین مرتبہ پانی بہاکر اس طرح دھولیا جائے کہ ہر مرتبہ کے بعد وائپر یا پونچھے سے سکھالیا جائے تو فرش پاک ہوجائے گا، اسی طرح اگر ایک مرتبہ زیادہ مقدار میں پانی بہادیا جاے (جس کی کوئی حد متعین نہیں ہے ، بس اتنا کافی ہے ) کہ ظن غالب ہوجائے کہ نجاست زائل ہوگئی اور بو وغیرہ باقی نہ رہے تو بھی فرش پاک ہوجائے گا، دھوتے اور وائپر کرتے وقت، فرش کے پاک ہونے سے پہلے جو تری پاؤں وغیرہ پر لگے گی وہ تو ناپاک ہی ہے ؛ لیکن فرش دھل جانے اور پاک ہوجانے پر پاؤں وغیرہ بھی تبعا پاک شمار ہوں گے ، اس میں سے تری کسی اور چیز میں لگنے سے وہ چیز ناپاک نہ ہوگی ۔ الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلہا فإن کانت رخوة یصب الماء علیہا ثلاثا فتطہر وإن کانت صلبة قالوا: یصب الماء علیہا وتدلک ثم تنشف بصوف أو خرقة یفعل کذلک ثلاث مرات فتطہر وإن صب علیہا ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحہا ولا لونہا وترکت حتی جفت تطہر کذا فی فتاوی قاضی خان.[الفتاوی الہندیة 1/ 43، مطبوعة: مکتبة زکریا ، دیوبند)

    ﴿و﴾ ذکر ﴿فی المحیط عن شمس الأئمة السرخسی الأرض إذا جفت﴾ أی بعد إصابة النجاسة ﴿ولم یتبین أثرالنجاسة﴾ فیہا ﴿تطہر سواءٌ وقع علیہا الشمس أو لم تقع﴾ وقد تقدم الکلام علی ذلک مستوفی فی التیمم.(غنیة المتملی،1/392، مطبوعة: دارالعلوم/دیوبند)

    (و) تطہر (أرض) بخلاف نحو بساط (بیبسہا) أی: جفافہا ولو بریح (وذہاب أثرہا کلون) وریح (ل) أجل (صلاة) علیہا (لا لتیمم) بہا؛ لأن المشروط لہا الطہارة ولہ الطہوریة. (و) حکم (آجر) ونحوہ...کذلک) أی: کأرض، فیطہر بجفاف وکذا کل ما کان ثابتا فیہا لأخذہ حکمہا باتصالہ بہا فالمنفصل یغسل لا غیر، إلا حجرا خشنا کرحی فکأرض.[الدر المختار) (قولہ: إلا حجرا خشنا إلخ) فی الخانیة ما نصہ: الحجر إذا أصابتہ النجاسة، إن کان حجرا یتشرب النجاسة کحجر الرحی یکون یبسہ طہارة، وإن کان لا یتشرب لا یطہر إلا بالغسل. اہ. ومثلہ فی البحر.

    .......أن اللبن والآجر قد خرجا بالطبخ والصنعة عن ماہیتہما الأصلیة بخلاف الحجر فإنہ علی أصل خلقتہ فأشبہ الأرض بأصلہ، وأشبہ غیرہا بانفصالہ عنہا، فقلنا إذا کان خشنا فہو فی حکم الأرض؛ لأنہ یتشرب النجاسة، وإن کان أملس فہو فی حکم غیرہا؛ لأنہ لا یتشرب النجاسة. - واللہ أعلم -.[الدر المختار مع رد المحتار:1/ 512، کتاب الطہارة، باب الأنجاس، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند