• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 603578

    عنوان:

    اگر جنبی آدمی كنویں میں گرجائے تو پانی كا كیا حكم ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں اگر کوئی جنبی شخص کنویں میں گرجائے اور اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو کنویں کے پانی کا کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 603578

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:581-97T/N=8/1442

     اگر کوئی جنبی شخص کنویں میں گرجائے اور اس کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، نیز اُس نے اس سے پہلے پانی سے استنجا کیا ہو، صرف ڈھیلے یا ٹیشو پیپر پر اکتفا نہ کیا ہو تو کنویں میں گرتے ہی جنبی کے جسم سے جو پانی ٹچ (متصل) ہوگا، وہ مستعمل ہوجائے گا، یعنی: وہ پاک ہوگا؛ لیکن پاک کرنے والا نہ ہوگا، کنویں کا سارا پانی مستعمل نہ ہوگا، پس اگر مستعمل پانی کی مقدار غیر مستعمل سے زیادہ ہوگی تو اس کنویں سے وضو اور غسل درست ہوگا، اور اگر مستعمل کی مقدار زیادہ ہوگی یا مستعمل اور غیر مستعمل دونوں کی مقدار برابر ہوگی تو اُس سے وضو اور غسل درست نہ ہوگا۔

    اختلف في محدث انغمس في بئر للدلو أو تبرد مستنجیاً بالماء ولا نجس علیہ ولم ینو ولم یتدلک، والأصح أنہ طاھر والماء مستعمل لاشتراط الانفصال للاستعمال والمراد أن ما اتصل بأعضائہ وانفصل عنھا مستعمل لا کل الماء علی ما مر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۵۳ - ۳۵۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱: ۶۶۸ - ۶۷۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”محدث“: أي: حدثاً أصغر أو أکبر، جنابة أو حیضاً أو نفاساً بعد انقطاعھما (رد المحتار)۔

    ثم المیاہ علی خمسة أقسام:……طاھر غیر مطھر وھو ما استعمل لرفع حدث أو لقربة کالوضوء علی الوضوء بنیتہ۔……ولا یجوز بماء زال طبعہ بالطبخ أو بغلبة غیرہ علیہ۔…… والغلبة في المائع الذي لا وصف لہ کالماء المستعمل وماء الورد المنقطع الرائحة تکون بالوزن؛ فإن اختلط رطلان من الماء المستعمل برطل من المطلق لا یجوز الوضوء وبعکسہ جاز (نور الإیضاح ونجاة الأرواح، کتاب الطھارة، ص: ۲۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    وإن استویا لم یذکر حکمہ في ظاھر الروایة، وقال المشایخ: حکمہ حکم المغلوب احتیاطاً (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۲۷، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    (و) لا -یرفع الحدث- بماء (مغلوب ب) شیء (طاھر)، الغلبة إما………بغلبة المخالط؛ فلو…مائعاً؛ فلو…مماثلا کمستعمل فبالأجزاء؛ فإن المطلق أکثر من النصف جاز التطھیر بالکل وإلا لا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۲۶، ۳۲۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند۔ ۱: ۶۰۴- ۶۰۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”کمستعمل“: أي: علی القول بطھارتہ وکالماء الذي یوٴخذ بالتقطیر من لسان الثور وماء الورد المنقطع الرائحة، بحر۔ قولہ: ”وإلا لا“: أي: وإن لم یکن المطلق أکثر بأن کان أقل أو مساویاً لا یجوز (رد المحتار)۔

    (وھو طاھر) ولو من جنب، وھو الظاھر؛ لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھا للاستقذار، وعلی روایة نجاستہ تحریماً (و) حکمہ أنہ (لیس بطھور) لحدث (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۵۲، ۳۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱: ۶۶۶ - ۶۶۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وھو الظاھر“: کذا في الذخیرة، أي: ظاھر الروایة، وممن صرح بأن روایة الطھارة ظاھر الروایة وعلیھا الفتوی في الکافي والمصفی کما في شرح الشیخ إسماعیل (رد المحتار)، قولہ: ”لیس بطھور“: أي: لیس بمطھِّر (المصدر السابق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند