• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 602390

    عنوان:

    بالٹی میں ناپاك كپڑا ڈال كر اوپر سے خوب پانی بہایا جائے تو كیا كپڑا پاك ہوجائے گا؟

    سوال:

    (۱) بالٹی میں ناپاک کپڑے ڈال کر ،اس بالٹی کے اوپر موٹر کھول کر خوب پانی بہنے دیا، اور پانی 3 بالٹی سے زیادہ بہہ گیا تو کیا کپڑے پاک ہوئے ؟

    جواب نمبر: 602390

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:464-387/L=6/1442

     اگر کپڑے پر ایسی کوئی نجاست لگی ہوئی ہے جو ذی جرم (نظر آنے والی) ہے تو اس کی طہارت کے لیے اس نجاست کا زائل کرنا ضروری ہے ،اور اگر نجاست غیر مرئیہ ہے یعنی نظر نہ آنے والی ہے تو اس کو تین مرتبہ دھونا اور ہر مرتبہ نچوڑنا ضروری ہے ؛البتہ اگر ناپاک کپڑوں کو کسی بالٹی میں ڈال کر اس کے اوپر سے خوب پانی بہادیا جائے کہ دھونے والے کو غالب گمان ہو جائے کہ اب نجاست نکل چکی ہے تو کپڑے پاک ہوجائیں گے ۔

    "و" یطہر محل النجاسة "غیر المرئیة بغسلہا ثلاثا" وجوبا وسبعا مع الترتیب ندبا فی نجاسة الکلب خروجا من الخلاف "والعصر کل مرة" تقدیرا لغلبة. الظن فی استخراجہا فی ظاہر الروایة وفی روایة یکتفی بالعصر مرة وہو أوفق ووضعہ فی الماء الجاری یغنی عن التثلیث والعصر کالإناء إذا وضعہ فیہ فامتلأ وخرج منہ طہر(مراقی الفلاح) وفی حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: قولہ: "ووضعہ فی الماء الجاری الخ" یعنی اشتراط الغسل والعصر ثلاثا إنما ہو إذا غمسہ فی إجانة أما إذا غمسہ فی ماء جار حتی جری علیہ الماء أو صب علیہ ماء کثیرا بحیث یخرج ما أصابہ من الماء ویخلفہ غیرہ ثلاثا فقد طہر مطلقا بلا اشتراط عصر وتجفیف وتکرار غمس ہو المختار.[حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 162)أقول: لکن قد علمت أن المعتبر فی تطہیر النجاسة المرئیة زوال عینہا ولو بغسلة واحدة ولو فی إجانة کما مر، فلا یشترط فیہا تثلیث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن فی تطہیر غیر المرئیة بلا عدد علی المفتی بہ أو مع شرط التثلیث علی ما مر، ولا شک أن الغسل بالماء الجاری وما فی حکمہ من الغدیر أو الصب الکثیر الذی یذہب بالنجاسة أصلا ویخلفہ غیرہ مرارا بالجریان أقوی من الغسل فی الإجانة التی علی خلاف القیاس؛ لأن النجاسة فیہا تلاقی الماء وتسری معہ فی جمیع أجزاء الثوب فیبعد کل البعد التسویة بینہما فی اشتراط التثلیث، ولیس اشتراطہ حکما تعبدیا حتی یلتزم وإن لم یعقل معناہ، ولہذا قال الإمام الحلوانی علی قیاس قول أبی یوسف فی إزار الحمام: إنہ لو کانت النجاسة دما أو بولا وصب علیہ الماء کفاہ، وقول الفتح إن ذلک لضرورة ستر العورة کما مر ردہ فی البحر بما فی السراج، وأقرہ فی النہر وغیرہ. (قولہ: فی غدیر) أی: ماء کثیر لہ حکم الجاری․ (قولہ: أو صب علیہ ماء کثیر) أی: بحیث یخرج الماء ویخلفہ غیرہ ثلاثا؛ لأن الجریان بمنزلة التکرار والعصر ہو الصحیح سراج․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 333)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند