• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 602213

    عنوان:

    کنویں میں گرگٹ گر کر مر کر پھول گیا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ابھی بعد نماز ظہر مسجد کے کنویں میں ایک گرگٹ مرا ہوا ملا ہے اور پھول گیا ہے اور پانی کے اوپر آگیا ہے پاکی کی کیا صورت ہوگی اور گرگٹ کے مرنے کے علم سے پہلے جو نماز یں پڑہی گئی ہیں اس پانی سے ان نمازوں کا کیا حکم ہے ؟ برائے مہربانی جلد جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 602213

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:424-86T/sd=8/1442

     (۱) صورت مسئولہ میں گرگٹ نکالنے کے بعد کنویں کا تمام پانی نکالنا ضروری ہے اور اگر سارا پانی نکالنا ممکن نہ ہو تو دو سو ڈول سے تین سو ڈول پانی نکالنے سے کنواں پاک ہوجائے گا۔

    قال الحصکفی: (إذا وقعت نجاسة) ۔۔۔ (فی بئر دون القدر الکثیر) ۔۔۔ (أو مات فیہا) ۔۔۔ (حیوان دموی) غیر مائی لما مر (وانتفخ) أو تمعط (أو تفسخ) ولو تفسخہ خارجہا ثم وقع فیہا ذکرہ الوالی (ینزح کل مائہا) الذی کان فیہا وقت الوقوع ذکرہ ابن الکمال (بعد إخراجہ) ۔۔۔ (وإن تعذر) نزح کلہا لکونہا معینا (فبقدر ما فیہا) وقت ابتداء النزح قالہ الحلبی (یوٴخذ ذلک بقول رجلین عدلین لہما بصارة بالماء) بہ یفتی، وقیل یفتی بمائة إلی ثلثمائة وہذا أیسر، وذاک أحوط. (الدر المختار مع رد المحتار: ۲۱۱/۱، دار الفکر، بیروت) فتاوی دار العلوم دیوبند: ۱۶۳/۱، قدیم،

    گرگٹ کی حقیقت اور اس سے متعلق فقہاء کی تصریحات کے لیے دیکھیے: فتاوی محمودیہ مع حاشیہ: ۵۶/۸، ۵۷، میرٹھ) (۲) اگر اس بات کا صحیح علم نہیں ہے کہ گرگٹ کنویں میں کب گرا تھا، تو اب صورت مسئولہ میں فقہائے کرام کے دو قول ہیں: (۱) جس وقت سے گرگٹ کے کنویں میں مرنے کاعلم ہو، اسی وقت سے نجاست کا حکم لگے گا، اس سے پہلے اس پانی سے وضوء یا غسل کرکے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ صحیح ہوگئیں، ان کو لوٹا نا واجب نہیں ہے۔فتاوی دار العلوم دیوبند میں اس کو مفتی بہ قول قرار دیا گیا ہے اور فتاوی محمودیہ میں اس پر عمل کرنے گنجائش دی گئی ہے۔ (فتاوی دار العلوم دیوبند: ۶۴/۱، قدیم)

    (۲) جس وقت گرگٹ کے مرنے اور پھولنے پھٹنے کا علم ہوا، احتیاط اس میں ہے کہ اس سے پہلے تین دن تین راتوں کے دوران جو نمازیں اس کنویں سے وضوء یا غسل کرکے پڑھی گئیں ہوں، ان کو لوٹا لیا جائے،دلائل کے اعتبار سے یہ قول زیادہ مضبوط ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب النوازل: ۶۹/۳، فتاوی محمودیہ: ۵۹/۸، میرٹھ)

    قال الحصکفی: (ویحکم بنجاستہا) مغلظة (من وقت الوقوع إن علم، وإلا فمذ یوم ولیلة إن لم ینتفخ ولم یتفسخ) وہذا (فی حق الوضوء) والغسل۔ قال ابن عابدین: (قولہ من وقت الوقوع) أی وقوع ما مات فیہا (قولہ إن علم) أی الوقت أو غلب علی الظن قہستانی، ومنہ ما إذا شہد رجلان بوقوعہا یوم کذا کما فی السراج۔۔قال الحصکفی: (ومذ ثلاثة أیام) بلیالیہا (إن انتفخ أو تفسخ) استحسانا. وقالا: من وقت العلم فلا یلزمہم شیء قبلہ، قیل وبہ یفتی. قال ابن عابدین: (قولہ فلا یلزمہم) أی أصحاب البئر شیء من إعادة الصلاة أو غسل ما أصابہ ماوٴہا کما صرح بہ الزیلعی وصاحب البحر والفیض وشارح المنیة، فقول الدرر بل غسل ما أصابہ ماوٴہا، قال فی الشرنبلالیة: لعل الصواب خلافہ (قولہ قبلہ) أی قبل العلم بالنجاسة (قولہ قیل وبہ یفتی) قائلہ صاحب الجوہرة. وقال العلامة قاسم فی تصحیح القدوری: قال فی فتاوی العتابی: قولہما ہو المختار. قلت: لم یوافق علی ذلک، فقد اعتمد قول الإمام البرہانی والنسفی والموصلی وصدر الشریعة، ورجح دلیلہ فی جمیع المصنفات، وصرح فی البدائع بأن قولہما قیاس، وقولہ استحسان، وہو الأحوط فی العبادات. اہ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲۱۸/۱، فصل فی البئر، دار الفکر، بیروت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند