عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 601366
میرا سوال یہ ہے کہ جو لفظ کتابوں میں آیا ہے کنواں اس سے مراد کتنا ہے اور آج کل ہر گھر میں جو کنویں بنے ہوئے ہیں جسے ٹانکے کہا جاتا ہے ان کا کیا حکم ہے اگر اس میں چھپکلی گر جائے چوہا گر جائے اور مرے نا تو کیا حکم ہے؟ اور اگر مر جائے مگر سڑے گلے نہیں تو کیا حکم ہے؟ اور گاوں میں ایسا بار بار ہوتا رہتا ہے کبھی کوئی کبھی کوئی چیز گر جاتی ہے تو لوگ بیچارے ہر روز کیسے پورا پانی خالی کریں گے اور پانی کہاں سے لائیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر پیسوں سے پانی خریدنا پڑتا ہے ایک صاحب نے کہا ہے کہ گھریلو ٹانکے جو بیس تیس فٹ ہوتے ہیں اگر اس میں چوہا گر جائے مرے نا مرے چھپکلی گر جائے تو سارا پانی ناپاک ہو جائے گا پورا ٹانکا صاف کرنا پڑے گا۔
جواب نمبر: 601366
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 262-256/M=05/1442
کتابوں میں جو بِئرٌ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ایسا کنواں ہے جو دَہ دَردَہ نہ ہو یعنی جاری پانی نہ ہو، درمختار میں ہے: اختلف في مُحدثٍ انغمس في بئر لدلو الخ ۔ وفی الشامي: قولہ (في بئر) أي دون عشر ․․․․․․ ای ولیست جاریة ۔ (شامی اشرفی: 1/315)
آپ کے یہاں گھروں میں جو کنویں بنے ہوئے ہیں جن کو ٹانکے کہا جاتا ہے ان کی نوعیت اگر یہی ہے یعنی وہ دَہ دَردہ نہیں ہیں تو اُن میں اگر بڑی چھپکلی (جس میں بہتا ہوا خون ہوتا ہے) یا چوہا گِر کر مرجائے لیکن پھولے پھٹے نہیں تو بیس ڈول پانی نکالا جائے اور تیس ڈول نکال دینا بہتر ہے اور اگر پھول یا پھٹ جائے تو سارا پانی نکالنا چاہئے، اور جس میں بہتا ہوا خون نہ ہوتا ہو اس کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ کنویں کے مسایل کتب فتاوی میں مفصل موجود ہیں، کنویں کی صحیح صورت حال بتاکر مقامی مفتیان کرام سے معلوم کرنا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند