• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 601154

    عنوان:

    چہرے كے دانوں سے اگر خون نكلے تو وضو كے بارے میں كیا حكم ہے؟

    سوال:

    میرے جسم پر خصوصا منہ پر دانے نکلتے رہتے ہیں اور اکثر ان سے خون بھی نکلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے مجھے وضو کرنے میں مشکل ہوتی ہے ، مینے ان کا علاج بھی کروایا ہے لیکن ٹھیک نہیں ہو رہے ۔ چھوٹے چھوٹے دانے ہیں ان پر پٹی بھی نہیں کر سکتے ۔ وضو نہ ہونے کی وجہ سے میری نمازیں بھی رھ جاتی ہیں ۔ خون کپڑوں پر لگتا ہے تو کپڑے بھی ناپاک ہو جاتے ہیں ۔ میرے لیے کیا حکم ہے ؟ رہنمائی فرمادیں۔

    جواب نمبر: 601154

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:247-76T/SN=4/1442

     اگر دانے بہت چھوٹے چھوٹے ہوں اور ان سے خون بہت قلیل مقدار میں نکلتا ہو یعنی اس کے اندر اتنی صلاحیت نہ ہوتی ہو کہ بہ سکے تو توو ہ خون ناقض وضو نہیں ہے ، نیز اس طرح کا قلیل خون اگر کپڑے پر لگے تو کپڑے بھی ناپاک نہ ہوں گے ؛ لہذا ایسی صورت میں آپ نماز پڑھ سکتے ہیں، اگر دانے بڑے ہوں اور خون زیادہ یعنی اتنا نکلے جو بہ سکے تو پھر اس سے وضو ٹوٹ جائے گا ، نیز کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے ۔ ایسی صورت میں آپ کے حق میں حکم کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ایک مکمل نماز کا وقت اس حال میں گزر جائے کہ دانوں سے خون نکلتا رہے ، اتنا وقفہ بھی نہ ہو کہ آپ وضو کرکے وقتیہ نماز ادا کرسکیں تو آپ شرعی معذور کے حکم میں ہوں گے ، اور ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر ایک مرتبہ وضو کرلینا کافی ہوگا ، اور اسی سے وقت کے اندرجتنی چاہیں نمازپڑھ سکتے ہیں؛ ہاں اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا ، وضو کرنے کے بعد وقت کے اندر اندر اس عذر یعنی دانوں سے خون نکلنے کی بنا پرآپ کا وضو نہ ٹوٹے گا ، رہے کپڑے تو کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہر نماز کے وقت کپڑے بدل کر پڑھیں ،اگر خون کا تسلسل اتنا زیادہ ہو کہ کپڑے بدلتے ہی فورا ناپاک ہوجاتے ہیں ، تو آپ خون آلود کپڑوں میں بھی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ معذور میں داخل ہونے کے لیے لیے تو کسی نماز کے مکمل وقت میں خون کا نکلناسابق تفصیل کے مطابق ضروری ہے ؛ الیکن بقائے عذر کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ وقت کے اندر ایک مرتبہ یہ عذر پایا جائے ۔ معذور کی مزید تفصیل بہشتی زیور وغیرہ میں دیکھ لی جائے ۔

    (و) کل (ما لیس بحدث) أصلا بقرینة زیادة الباء کقیء قلیل ودم لو ترک لم یسل (لیس بنجس) عند الثانی، وہو الصحیح رفقا بأصحاب القروح خلافا لمحمد. وفی الجوہرة: یفتی بقول محمد لو المصاب مائعا.[الدر المختار)(قولہ: أصلا) أی فی کل وقت، فلا یرد الخارج من المحدث، ومن أصحاب الأعذار لأن انتفاء الانتقاض یختص بوقت خاص قہستانی أی فہذا لیس بحدث مع أنہ نجس، فلذا أخرجہ بقولہ أصلا المستفاد من زیادة الباء التی ہی لتأکید نفی الخبر.

    وقد قال: المراد ما یخرج من بدن المتطہر وہو المتبادر؛ وأما ما یخرج من بدن المعذور فہو حدث، لکن لا یظہر أثرہ إلا بخروج الوقت کما صرحوا بہ (قولہ: لیس بنجس) أی لا یعرض لہ وصف النجاسة بسبب خروجہ بخلاف القلیل من قیء عین الخمر أو البول فإنہ وإن لم یکن حدثا لقلتہ لکنہ نجس بالأصالة لا بالخروج، ہذا ما ظہر لی، تأمل (قولہ: وہو الصحیح) کذا فی الہدایة والکافی. وفی شرح الوقایة إنہ ظاہر الروایة عن أصحابنا الثلاثة. اہ. إسماعیل (قولہ: مائعا) أی کالماء ونحوہ، أما فی الثیاب والأبدان فیفتی بقول أبی یوسف.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ 269، نواقض الوضوء، مطبوعة: مکتبة زکریا ، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند