• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 600698

    عنوان: پخانہ کے مقام پر تری معلوم ہو تو نجاست كب سے سمجھی جائے گی؟

    سوال:

    پاخانہ کے مقام سے کبھی گیس کی وجہ سے یا کبھی ایسے ہی چلتے پھرتے کچھ تری جو پخانہ کی طرح دیکھتی ہے نکل جاتی ہے اور پتا بھی نہیں چلتا کب نکلی اور کپڑے پر لگ جاتی ہے جس کا پتا نہیں چلتا رات کو کپڑے بدلتے وقت دیکھتی ہے تو ایسی صورت میں پورے دن جو نمازے پڑھی اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ایسی صورت میں کبھی امامت کی ہو تو اس کا کیا حکم ہے اور یے مسألہ کبھی کبھی پیش آتا ہے اور کبھی یے تری پخانہ کے مقام پر ہی ہوتی ہے تجاوز نہیں کرتی اس بارے میں کیاحکم ہے ؟

    جواب نمبر: 600698

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 92-23T/D=03/1442

     اگر نجاست کے نکلنے کا وقت یقین یا غالب گمان کے طور پر معلوم ہوجائے، تو دو صورتیں ہیں: ۔

    (۱) نجاست ایک درہم کی مقدار سے کم ہو، اس صورت میں سب نمازیں ہوگئیں، بشرطیکہ وضو اور نماز کے درمیان نجاست نہ نکلی ہو۔

    (۲) نجاست ایک درہم کی مقدار سے زائد ہو، اس صورت میں نجاست لگنے کے بعد کی نمازیں جو اس کپڑے میں پڑھی گئیں، صحیح نہیں ہوئیں، ان کو لوٹانا ہوگا۔ (کپڑے کے نجس ہونے کی وجہ سے)

    اور اگر نجاست نکلنے کا وقت معلوم نہ ہوسکے تو اگرنجاست تر ہے تو جس وقت دیکھی ہے اسی وقت سے کپڑا ناپاک مانا جائے گا، سابقہ سب نمازیں درست ہوگئیں۔

    اور اگر تری پاخانہ کے مقام پر ہی ہو، اس سے آگے نہ بڑھی ہو، تو بھی نمازیں صحیح ہوگئیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ نماز سے پہلے کپڑے دیکھ لیا کریں ان کے علاوہ کوئی اور صورت پیش آئی ہو تو اس کو لکھ کر دوبارہ مسئلہ معلوم کرلیں۔

    في رد المحتار: لا یجب الغسل بالماء إلا إذا تجاوز ما علی نفس المخرج وما حولہ من موضع الشرج ۔ (۱/۵۵۰، ط: زکریا) فی تقریرات الرافعي: أما لو انتبہ من آخر نومة نامہا مثلاً قبل الفجر، ثم لم یجد المني إلا بعد صلاة المغرب مثلاً، وکان ذلک المني رطباً ، یستحیل في العقل بقاوٴہ رطباً في ہذہ المدة ․․․․․․․ فلا نحکم بتنجسہ إلا فی الحال ولا نستند إلی آخر نومة ۔ سندي عن السراج (ص: ۳۸، فی آخر المجلد الأول من ردالمحتار، ط: زکریا) في الدر: ویحکم بنجاستہا من وقت الوقوع إن علم ۔ (الدر مع الرد: ۱/۳۷۵) وفیہ: وعفا الشارع عن قدر درہم الخ (۱/۵۲۰، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند