• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 600262

    عنوان:

    بورنگ میں ماء مستعمل جمع کرکے اُسے دوبارہ وضو کے حوض میں ڈالنا

    سوال:

    مسجد کے حوض سے وضو کے لئے استعمال شدہ پانی بورنگ میں جمع کرکے دوبارہ حوض میں ڈالنا کیسا ہے ایسسا کرنے سے پانی پاک ہونا ہے یا نہیں یا اس میں کچھ تفصیل ہے بتائیں۔ اعانکم اللہ

    جواب نمبر: 600262

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:94-36T/N=3/1442

     اگر اعضائے وضو پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو وضو میں استعمال شدہ پانی مفتی بہ قول کے مطابق ناپاک تونہیں ہوتا؛ لیکن پاک کرنے والا بھی نہیں ہوتا؛ لہٰذا ایسے پانی سے وضو یا غسل درست نہ ہوگا۔ اور اگر ایسا پانی، کسی غیر مستعمل پانی میں ملادیا جائے تو غلبہ کا اعتبار ہوگا، یعنی: اگر مستعمل پانی کی مقدار زیادہ ہو اور غیر مستعمل کی کم تواس سے وضو اور غسل درست ہوگا۔ اور اگر مستعمل پانی کی مقدار زیادہ ہو اور غیر مستعمل کی کم تو اس سے وضو یا غسل درست نہ ہوگا۔ اور اگر دونوں کی مقدار برابر ہو تو بھی اُس سے وضو یا غسل درست نہ ہوگا، احوط یہی ہے۔

    پس صورت مسئولہ میں اگر بورنگ میں موجود غیر مستعمل پانی کی مقدار زیادہ ہو اور اس میں جمع ہونے والے مستعمل (پاک) پانی کی مقدار کم ہو تو اُس سے وضو اور غسل ہوجائے گا اگرچہ بلا عذر ومجبوری مستعمل پانی، غیر مستعمل میں ملانا کراہت سے خالی نہیں۔ اور اگر غیر مستعمل پانی کی مقدار کم ہو یا دونوں برابر ہوں تو اس سے وضو یا غسل درست نہ ہوگا ۔

    ثم المیاہ علی خمسة أقسام:……طاھر غیر مطھر وھو ما استعمل لرفع حدث أو لقربة کالوضوء علی الوضوء بنیتہ۔……ولا یجوز بماء زال طبعہ بالطبخ أو بغلبة غیرہ علیہ۔…… والغلبة في المائع الذي لا وصف لہ کالماء المستعمل وماء الورد المنقطع الرائحة تکون بالوزن؛ فإن اختلط رطلان من الماء المستعمل برطل من المطلق لا یجوز الوضوء وبعکسہ جاز (نور الإیضاح ونجاة الأرواح، کتاب الطھارة، ص: ۲۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    وإن استویا لم یذکر حکمہ في ظاھر الروایة، وقال المشایخ: حکمہ حکم المغلوب احتیاطاً (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۲۷، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    (و) لا -یرفع الحدث- بماء (مغلوب ب) شیء (طاھر)، الغلبة إما………بغلبة المخالط؛ فلو…مائعاً؛ فلو…مماثلا کمستعمل فبالأجزاء؛ فإن المطلق أکثر من النصف جاز التطھیر بالکل وإلا لا (الدر المختار مع رد المحتار کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۲۶، ۳۲۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند۔ ۱: ۶۰۴- ۶۰۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”کمستعمل“: أي: علی القول بطھارتہ وکالماء الذي یوٴخذ بالتقطیر من لسان الثور وماء الورد المنقطع الرائحة، بحر۔ قولہ: ”وإلا لا“: أي: وإن لم یکن المطلق أکثر بأن کان أقل أو مساویاً لا یجوز (رد المحتار)۔

    (وھو طاھر) ولو من جنب، وھو الظاھر؛ لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھا للاستقذار، وعلی روایة نجاستہ تحریماً (و) حکمہ أنہ (لیس بطھور) لحدث (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۵۲، ۳۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱: ۶۶۶ - ۶۶۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وھو الظاھر“: کذا في الذخیرة، أي: ظاھر الروایة، وممن صرح بأن روایة الطھارة ظاھر الروایة وعلیھا الفتوی في الکافي والمصفی کما في شرح الشیخ إسماعیل (رد المحتار)، قولہ: ”لیس بطھور“: أي: لیس بمطھِّر (المصدر السابق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند