• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 59455

    عنوان: میں نے سنا ہے کہ گیلی نجاست جیسے مذی، منی سکے کے سائز سے کم ہو تو اس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتاہے جب کہ پیشاب کے ایک قطرہ سے کپڑا ناپاک ہوجاتاہے۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں

    سوال: (۱) میں نے سنا ہے کہ گیلی نجاست جیسے مذی، منی سکے کے سائز سے کم ہو تو اس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتاہے جب کہ پیشاب کے ایک قطرہ سے کپڑا ناپاک ہوجاتاہے۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ (۲) اگر فرض غسل کی ضرورت ہو تو صابن سے اپنے آپ کو صاف کرنا ضروری ہے جہاں منی لگی ہو؟ یا صرف میں پانی سے پاک ہوسکتاہوں؟ (۳) میرے کپڑے میں مذی کا قطرہ نظر آئے تو اس کو صاف کرنے کا کیا طریقہ ہے؟اسے صابن سے دھونا چاہئے یا صرف پانی سے صاف کرنا کافی ہے ؟ اگر مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ مذی اصل کس جگہ لگی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ (۴) اگر میرے کپڑے مذی سے ناپاک ہوجاتے ہیں اور مقدار ایک سکہ کے برابر ہے تو کیا اس سے ایک ہی بالٹی میں دھونے سے دوسرے پاک کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں؟ (۵) اگر مجھے کپڑے میں مذی نظر آتی ہے تو میں اسے پانی سے صاف کرتاہوں اور جب تک یہ سوکھ نہ جائے میں نہیں بیٹھتا ہوں اور میں اسے ہاتھ سے صابن لگا کر بہت زیادہ دھوتاہوں، کیوں کہ مجھے محسوس ہوتاہے کہ یہ چکنا مادہ ہے جسے بار بار دھونے کی ضرورت ہے۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا صرف پانی سے یہ صاف ہوسکتاہے ؟ اگر ہاں تو حوالے دیں۔

    جواب نمبر: 59455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 43-43/M=2/1437-U (۱) جو بات آپ نے سنی ہے وہ صحیح نہیں، دراصل مسئلہ یہ ہے کہ منی، مذی اور پیشاب وغیرہ نجاست مغلظہ ہیں، اگر وہ ایک سکے کے سائز سے کم ہو، اور اس نے نماز پڑھ لی، تو نماز صحیح ہوجائے گی، اور اگر ایک سکے کے مقدار کے برابر ہے تو دھونا واجب ہے اور اس سے کم ہے تو دھونا واجب نہیں؛ لیکن دھولینا بہتر ہے۔ المغلَّظة:وعُفي منہا قدرُ الدرہم․․․ کلُّ ما یخرجُ من بدن الإنسان مما یوجب خروجُہ الوضوء، أو الغُسلَ، فہو مغلَّظٌ کالغائد والبول والمنی والمذی والودی․․․ النجاسة إن کانت غلیظة وہي أکثر من قدر الدرہم، فغسلہا فریضة، والصلاة بہا باطلة، وإن کانت مقدارَ درہمٍ فغسلہا واجبٌ والصلاةُ معہا جائزة وإن کان أقل من قدر الدِّرہم فغسلہا سنة․ (الہندیة: ۱/ ۴۵، ۴۶، ۵۸/ زکریا) (۲) صابن سے نجاست کو صاف کرنا ضروری نہیں، صرف پانی سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، یجوز تطہیرُ النجاسةِ بالماء وبکل مائعٍ طاہرٍ، یُمکن إزالتُہا بہ (الہندیة: ۱/ ۴۱،زکریا) (۳) (ا) مذی وغیرہ نجاست کو کپڑے یابدن سے صاف کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر پانی بہاکر ہاتھ سے اتنا ملا جائے کہ نجاست زائد ہوجانے کا ظن غالب ہوجائے، تو ہ کپڑا پاک ہو جائے گا، صابن سے اس نجاست کو دھونا یا صاف کرنا ضروری نہیں ہے۔ وہذا کلہ إذا غُسل في إجانة، أما لو غُسل في غدیرٍ، أو صُبَّ علیہ ماءٌ کثیرٌ، أو أجري علیہ الماء طہُر مطلقًا (الدر مع الرد: ۱/ ۵۴۲- ۵۴۳، زکریا) (ب) نیز نجاست کا مقام جب یاد نہ رہے تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ کپڑے یا بدن کے کسی ایک جگہ کو جہاں ظن غالب مذی کے لگنے کا ہو، دھودیا جائے اور احتیاطاً کچھ زائد حصہ کو بھی دھولیا جائے؛ وغَسلُ طرفِ ثوبٍ أو بدنٍ أصابت نجاسةٌ محلاً منہ، ونسیَ المحلَّ مطہِّرٌ لہ وإن قع الغسلُ بغیر تحرٍّ․ وہو المختار (الدر المختار: ۱/ ۵۳۴/ زکریا) (۴) اگر ناپاک کا اثر دیگر کپڑوں میں ظاہر ہوجائے تو وہ کپڑے بھی ناپاک کپڑوں کے حکم میں ہوں گے، اور ان کو دھونا ضروری ہوگا، إذا لم یظہر في الثوب الطاہر أثرُ النجاسة من لونٍ أو ریحٍ؛ حتی لو کان المبلُول متلَوَّنًا بلونٍ، أو متکیَّفًا بریحٍ، فظہر ذلک في الطاہر یجب أن یکون نجسًا (بحوالہ محمودیہ: ۵/ ۲۵۴، دار المعارف) (۵) صرف پانی سے مذی وغیرہ کو صاف کردینا کپڑے کی طہارت کے لیے کافی ہے، صابن وغیرہ کا استعمال ضروری ولازم نہیں۔ حوالہ نمبر (۲) کے تحت گذرچکا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند