• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 59454

    عنوان: ایک طلاق دینے کی نیت ھو اور تین بار لفظ طلاق کہ دینےسے کتنی طلاق وقوع ھوئ

    سوال: عرض ھیکہ شادی کے بعد سے معمولی باتوں پر ھم میاں بیوی آپس میں لڑتے رھے ..جسکا ھمیشہ نتیجہ روٹھ کر بیوی کا میکے جانا ھوتا..صلح صفاء یا کبھی بیوی خود سے رابطہ کرکے معافی تلافی کے بعد واپس شوھر کے پاس آجاتی- اسطرح ۱۸ ماہ کے دوران کء بار یہ ھوا- ۷مء۲۰۱۳ کو بھی اسی طرح کا ایک معمولی جھگڑا ھوا.(ایک بات پھلے عرض کردوں ان لڑاء جھگروں اور باربار لڑ کرمیکے جانے سے میں تنگ آگیاتھا.میں بھشتی زیور کاباقدہ قاری ھوں.باب طلاق میں حکیم الامت رح کا ایک مسئلہ پڑھاتھا کہ اگر ایک طلاق دینے کی نیت ھو اور تین بار لفظ طلاق دوھرا دے تو وہ ایک ھی تصور کی جائیگی) اس مسئلہ کو سامنے رکھ کر میں نے بیوی سے لڑ کر میکے جانے پر اسے طلاق دی- واقعہ کچھ یوں پیش آیا-ایک معمولی جھگڑا ھوا بیوی نے میکے جانے کی کوشش کی جس پر میں نے اسے کہا کہ اگر تم دروازہ سے باھر نکلی تو میں طلاق دے دونگاوہ روکی نھیں اور میں نے ایک طلاق کی نیت سے تین بار لفظ طلاق دوھرا دیا- اب میں اپنی بیوی سے رجوع کرناچاھتا ھوں. احناف کی کء کتابوں کا مطالعہ کرچکاھوں.احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ھے علمائکرام اور ائمہ کے اقوال بھی پڑھ چکاھوں..اب اس معاملے آپ کیا ارشاد فرماتے ھیں قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کاحل تجویز فرمائے ۔

    جواب نمبر: 59454

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 615-580/Sn=9/1436-U آپ نے ”بہشتی زیور“ کا جو حوالہ دیا ہے وہ صحیح ہے، یہ بات بہشتی زیور ہی میں نہیں؛ بلکہ فقہ کی دیگر بہت سی کتابوں میں بھی ہے؛ لیکن یہ حکم ”دیانةً“ ہے، یعنی آپ کے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے، جب یہ بات دوسروں خصوصاً بیوی تک پہنچ گئی تو پھر معاملہ دیانت کا نہ رہا؛ بلکہ قضاء کا بن گیا، اب حکم ظاہر پر لگے گا؛ لہٰذا جب آپ نے ظاہراً زبان سے تین مرتبہ طلاق کہہ دیا اور بیوی نے اسے سن لیا تو تینوں طلاق واقع ہوگئیں، اور بیوی آپ پر قضاءً حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، چنانچہ ”بہشتی زیور“ میں بھی مذکور فی السوال مسئلے سے متصلاً یہ لکھا ہوا ہے کہ؛ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں؛ اس لیے یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں اھ (بہشتی زیور ص ۲۰۸، ط: اسلامک بک سروس)؛ لہٰذا اب آپ دونوں کے لیے ایک ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا جائز نہیں ہے، عدت گزرنے پر عورت اپنے نفس کی مختار ہے، وہ آپ کے علاوہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، وقال في الخانیة: لو قال أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، وقال: أردت بہ التکرار صدق دیانة، وفي القضاء: طلقت ثلاثاً، ومثلہ في الأشباہ والحدادي: وزاد الزیلعي أن المرأة کالقاضي، فلا یحلّ لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنّہا لا تعلم إلا الظاہر (تنقیح الفتاوی الحامدیة، ۱/۳۷، کتاب الطلاق، ط: مصر) وانظر: ”فتاوی عثمانی“ ۲/۳۴۹ تا ۳۶۱، ط: نعیمیہ، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند