عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 59454
جواب نمبر: 59454
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 615-580/Sn=9/1436-U آپ نے ”بہشتی زیور“ کا جو حوالہ دیا ہے وہ صحیح ہے، یہ بات بہشتی زیور ہی میں نہیں؛ بلکہ فقہ کی دیگر بہت سی کتابوں میں بھی ہے؛ لیکن یہ حکم ”دیانةً“ ہے، یعنی آپ کے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے، جب یہ بات دوسروں خصوصاً بیوی تک پہنچ گئی تو پھر معاملہ دیانت کا نہ رہا؛ بلکہ قضاء کا بن گیا، اب حکم ظاہر پر لگے گا؛ لہٰذا جب آپ نے ظاہراً زبان سے تین مرتبہ طلاق کہہ دیا اور بیوی نے اسے سن لیا تو تینوں طلاق واقع ہوگئیں، اور بیوی آپ پر قضاءً حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، چنانچہ ”بہشتی زیور“ میں بھی مذکور فی السوال مسئلے سے متصلاً یہ لکھا ہوا ہے کہ؛ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں؛ اس لیے یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں اھ (بہشتی زیور ص ۲۰۸، ط: اسلامک بک سروس)؛ لہٰذا اب آپ دونوں کے لیے ایک ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا جائز نہیں ہے، عدت گزرنے پر عورت اپنے نفس کی مختار ہے، وہ آپ کے علاوہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، وقال في الخانیة: لو قال أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، وقال: أردت بہ التکرار صدق دیانة، وفي القضاء: طلقت ثلاثاً، ومثلہ في الأشباہ والحدادي: وزاد الزیلعي أن المرأة کالقاضي، فلا یحلّ لہا أن تمکنہ إذا سمعت منہ ذلک أو علمت بہ؛ لأنّہا لا تعلم إلا الظاہر (تنقیح الفتاوی الحامدیة، ۱/۳۷، کتاب الطلاق، ط: مصر) وانظر: ”فتاوی عثمانی“ ۲/۳۴۹ تا ۳۶۱، ط: نعیمیہ، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند