عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 55604
جواب نمبر: 55604
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 63-63/Sn=11/1435-U احناف کے نزدیک غسل میں صرف ایک فرض ہے وہ یہ ہے: بدن کے جس حصے پر پانی بہانا بلا حرج وتنگی کے ممکن ہو وہاں وہاں پانی بہانا، خواہ وہ حصہ خارج جسم ہو (جیسے ہاتھ پاوٴں، پیٹ، پیٹھ وغیرہ) یا داخلِ جسم (جیسے ناک کا اندرونی حصہ اور منھ کا اندرونی حصہ) بہت سی کتابوں میں ناک میں پانی ڈالنے اور کلی کرنے کو الگ الگ کرکے غسل کے تین فرائض شمار کرائے گئے؛ لیکن مآلاً تین نہیں؛ بلکہ ایک ہی ہے۔ فرضیت کی دلیل آیت کریمہ ”وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا“ ہے اس میں ”بدن“ کو پاک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ”بدن“ کا اطلاق جسم کے بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے حصے پر ہوتا ہے؛ البتہ جہاں پانی پہنچانا دشوار ہو وہ حصہ مستثنیٰ ہوگا، بدائع الصنائع (۱/۱۴۲ ط: زکریا) میں ہے: ”وأما رکنہ فھو إسالة الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرة واحدة حتی لو بقیت لمعة لم یصبھا الماء لم یجز الغسل، وإن کانت یسیرة لقولہ تعالی وَإِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوا (المائدة:6) ، أی: طھروا أبدانکم، واسم البدن یقع علی الظاھر، والباطن فیجب تطھیر ما یمکن تطھیرہ منہ بلا حرج ولھذا وجبت المضمضة، والاستنشاق في الغسل، لأن إیصال الماء إلی داخل الفم، والأنف ممکن بلا حرج اھ وفي الہدایة (۱/۳۹ ط: تھانوی) وفرض الغسل المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن وعند الشافعي ہما سنتان فیہ․․․ لنا قولہ تعالی ”وَإِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوا“ أمر بالاطہار وہو تطہیر جمیع البدن إلا ما تعذّر إیصال الماء إلیہ خارج․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند