عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 47974
جواب نمبر: 47974
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1370-1357/N=12/1434-U مسنون تو یہ ہے کہ غسل کے شروع میں باقاعدہ وضو کرلیا جائے، اور اگر کسی نے غسل سے پہلے وضو نہیں کیا تو غسل کے ساتھ وضو بھی ہوجائے گا، کیونکہ غسل میں پورے جسم کے ساتھ اعضائے وضو بھی دھل جاتے ہیں، لہٰذا غسل کے بعد مستقل وضو کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، اس کے بغیر نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں، البتہ اگر غسل کے بعد وضو ٹوٹ گیا تو نماز وغیرہ کے لیے بہرحال دوبارہ وضو کرنا ہوگا، مشکاة شریف: (ص۴۸) میں ہے: عن عائشة قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یتوضأ بعد الغسل رواہ الترمذي وأبوداوٴد والنسائي وابن ماجة اھ اور مرقات شرح مشکاة (۲/۱۳۶، ۱۳۷ مطبوعہ دارالکتب العلمیة) میں ہے: ”کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا یتوضأ بعد الغسل“ أي: اکتفاء بوضوئہ الأول في الغسل وہو سنة أو باندراج ارتفاع الحدث الأصغر تحت ارتفاع الأکبر بإیصال الماء إلی جمیع أعضائہ وہو رخصة․․․ قال ابن حجر: وقالوا: ولا یشرع وضوء ان اتفاقا للخبر الصحیح: ”کان علیہ الصلاة والسلام لا یتوضأ بعد الغسل من الجنابة“ اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند