• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 4575

    عنوان:

    میں الہ آباد کا رہنے والا ہوں اور گڑگاوں میں  MNC کمپنی میں ملازم ہوں۔ ہماری آفس کے پاس کوئی مسجد نہیں ہے جہاں ہم آسانی کے ساتھ نماز پڑھ سکیں یا جمعہ میں شریک ہوسکیں۔ چناں چہ ہم اپنی آفس میں نماز پڑھتے ہیں جہاں ایک صاحب جو اہل حدیث ہیں نماز پڑھاتے ہیں، ان کے سلسلے میں مجھے یقین سے معلوم نہیں لیکن وہ عام موزے پر وضو کے دوران مسح کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ان کے پیچھے نماز پڑھیں تو ہماری نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ ہم اہل سنت ہیں اور حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں ان سے اس بابت سوال کرتا ہوں تو وہ دلیل طلب کرتے ہیں۔ التجاء ہے کہ دلائل کا خلاصہ بھی ارسال فرمائیں۔

    سوال:

    میں الہ آباد کا رہنے والا ہوں اور گڑگاوں میں  MNC کمپنی میں ملازم ہوں۔ ہماری آفس کے پاس کوئی مسجد نہیں ہے جہاں ہم آسانی کے ساتھ نماز پڑھ سکیں یا جمعہ میں شریک ہوسکیں۔ چناں چہ ہم اپنی آفس میں نماز پڑھتے ہیں جہاں ایک صاحب جو اہل حدیث ہیں نماز پڑھاتے ہیں، ان کے سلسلے میں مجھے یقین سے معلوم نہیں لیکن وہ عام موزے پر وضو کے دوران مسح کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ان کے پیچھے نماز پڑھیں تو ہماری نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ ہم اہل سنت ہیں اور حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں ان سے اس بابت سوال کرتا ہوں تو وہ دلیل طلب کرتے ہیں۔ التجاء ہے کہ دلائل کا خلاصہ بھی ارسال فرمائیں۔

    جواب نمبر: 4575

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 000/ ل= 000/ ل

     

    امت کے تمام مستند فقہاء و مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ باریک موزے جن سے پانی چھن جاتا ہو یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر کھڑے نہ رہتے ہوں، یا ان میں میل دو میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو، ان پر مسح جائز نہیں ہے: فإن کانا رقیقین یشفان الماء لا یجوز المسح علیھما بالإجماع (بدائع الصنائع: ج۱ ص۸۳، طکریا دیوبند) اور چونکہ ہمارے زمانے میں جو سوتی، اونی نائیلون کے موزے رائج ہیں وہ باریک ہوتے ہیں اور ان میں مذکورہ اوصاف نہیں پائے جاتے؛ اس لیے ان پر مسح کسی حال میں جائز نہیں اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ وضوء میں پاوٴں دھونے کا حکم نص قرآنی سے ثابت ہے اور قرآن پر زیادتی اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ اس کے خلاف کی صراحت حدیث متواتر یا حدیث مشہور میں آجائے، اخبار آحاد سے قرآن کریم پر زیادتی یا اس کا نسخ یا اس کی تقیید جائز نہیں ہوتی، مسح علی الخفین کی احادیث معنیً متواتر ہیں اس لیے تمام امت کا اس پر اجماع منعقد ہوگیا کہ قرآن کریم کی آیت میں پاوٴں دھونے کا حکم اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے، جب انسان نے خفین یعنی چمڑے کے موزے نہ پہن رکھے ہوں، چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ما قلت بالمسح حتی جاء ني فیہ ضوء النھار میں مسح علی الخفین کا اس وقت تک قائل نہیں ہوا جب تک کہ میرے پاس روزِ روشن کی طرح دلائل نہیں پہنچ گئے، جہاں تک کپڑے کے موزوں پر مسح کرنے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں تین حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے دو تو بالاتفاق ضعیف ہیں اور ایک کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے، بناءً علیہ ان احادیث سے قرآن پر زیادتی کرنا درست نہیں او رجن صحابہ کرام سے منقول ہے کہ انھوں نے جوربین پر مسح کیا یا اس کی اجازت دی تو ان آثار میں کہیں بھی یہ صراحت نہیں ہے کہ جوربین کپڑے کے باریک موزے تھے۔ اورجب تک یہ صراحت نہ ہو اس وقت تک ان آثار سے باریک موزوں پر مسح کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا، چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم علامہ شمس الحق عظیم آبادی عون المعبود: ۱/۶۲ پر لکھتے ہیں، جس کا ترجمہ ہے: جوربین کھال کے بھی ہوتے ہیں اور اون کے بھی اور روئی کے بھی اور ہرایک کو جورب کہا جاتا ہے، اور ہرقسم کے موزے پرمسح کی اجازت اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اون کے جوربین پر مسح فرمایا، بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ ثابت ہے کہ ان حضرات نے جن جوربین پر مسح فرمایا وہ یا تو چمڑے کے تھے یا اپنی موٹائی کی وجہ سے چمڑے کے موزوں کی طرح تھے اور ان میں چمڑے کے موزوں کی صفات پائی جاتی تھیں چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: عن سعید بن المسیب والحسن إنھما قالا: یمسح علی الجوربین إذا کانا صفیقین (مصنف ابن أبي شیبة: ج۱ ص۱۸۸) حضرت سعید بن المسیب اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز ہے بشرطیکہ وہ خوب موٹی ہوں۔

    پتہ چلا کہ مروجہ اونی، سوتی، نائیلون کے موزے جن میں مذکورہ اوصاف نہیں پائے جاتے ان پر مسح کرنا درست نہیں اور جو امام ان موزوں پر مسح کرے اس کی اقتداء صحیح نہیں: الرابع عشر من شروط صحة الاقتداء أن لا یعلم المقتدي من حال إمامہ المخالف لمذھبہ مفسدًا في زعم الماموم (مراقي الفلاح: ۱۶، باب الإمامة) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فقہی مقالات: جلد دوم)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند