• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 31735

    عنوان: قرآن مجید کی آیت ۵- میں تو چہرے اور ہاتھوں کے لیے اغسلوا اور سر وپیر کے لیے امسحوا استعمال ہوا ہے، تو ہم کیوں پیروں کو دھوتے ہیں

    سوال: قرآن مجید کی آیت ۵- میں تو چہرے اور ہاتھوں کے لیے اغسلوا اور سر وپیر کے لیے امسحوا استعمال ہوا ہے، تو ہم کیوں پیروں کو دھوتے ہیں، جن باعلم حضرات کے فتویٰ کے مطابق ہم یہ عمل کرتے ہیں جو قرآن کے الفاظ کو اپنی مرضی کا مطلب دینے کے مترادف ہے، کیا ہم سر کا مسح کرنے کی بجائے اسے بھی دھوسکتے ہیں یا سر کا مسح کرلیں اور پیر دھولیں۔

    جواب نمبر: 31735

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 807=289-5/1432 پیروں کا وظیفہ غسل ہے جمہور اہل سنت والجماعت کا مسلک یہی ہے، حضرت علامہ انور شاہ الکشمیری مشکلات القرآن میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”قرآن کریم کی تقریر کو سمجھنے کا سب سے زیادہ قابل اعتماد راستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور صحابہ کا تعامل ہے اور جب ہم تعامل کو دیکھتے ہیں تو کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ملتی جس سے مسح رجلین ثابت ہوتا ہو، یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ قرآن کریم میں غسل کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ مسح کا، اب یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر ایسے واضح الفاظ کیوں نہیں استعمال فرمائے گئے جو بغیر کسی مخالف احتمال کے غسل پر دلالت کریں، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ بسا اوقات کچھ باتوں کو فہم مخاطبین پر اعتماد کرکے چھوڑدیتا ہے، اب یہاں صورت یہ ہے کہ یہ آیت سورہٴ مائدہ کی ہے جو مدنی ہے اور اس وقت نازل ہوئی جب کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کی بعثت کو کم ازکم اٹھارہ سال ہوچکے تھے حالانکہ وضو پر عمل ابتدائے بعثت سے ہی چلا آرہا تھا؛ لہٰذا اس آیت نے کوئی نیا حکم نہیں دیا؛ بلکہ سابقہ تعامل کی توثیق فرمائی، چونکہ صحابہٴ کرام اٹھارہ سال سے وضو کرتے آرہے تھے اور اس کا طریقہ معروف ومشہور تھا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پاوٴں دھوئے جائیں گے؛ لہٰذا اس آیت میں ایک ایک جزئیہ کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہ تھا، چونکہ اس کا امکان ہی نہ تھا کہ وہ اس آیت سے غسل کے علاوہ کوئی اور حکم مستنبط کریں گے، اس لیے بعض ان نکات اور مصالح کی وجہ سے جن کا ذکر آگے آئے گا، باری تعالیٰ نے اَرْجل کو مسح کے سیاق میں ذکر کرکے عبارت ایسی رکھی جس میں بظاہر رجلین کے غسل اور مسح دونوں معنی کی گنجائش ہے اور امت کا اس پر تعامل اس پر شاہد ہے کہ انھوں نے واقعتا غسل کے سوا اس کا کوئی اور مفہوم نہیں سمجھا۔ (درس ترمذی: ۱/۲۵۲) اس آیت میں ترکیب کے اعتبار سے بھی کچھ علمی بحثیں ہیں اگر تفصیل درکار ہو تو درس ترمذی کا مطالعہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند