• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 179768

    عنوان:

    دورانِ پیشاب جِسم اور کپڑوں پر پیشاب کے قطروں کے متعلق حکم

    سوال:

    سوال یہ ہے کہ بعض اوقات انڈین سیٹ یا انگلش سیٹ پہ بیٹھ کر پیشاب کرتے ہوئے پیشاب کے پریشر کی وجہ سے کچھ قطرے پنڈلیوں یا کولہوں یا کپڑوں پر لگ جاتے ہیں؛ اگرچہ یہ سب جان بوجھ کر نہیں ہوتا۔ تو ایسے میں اللہ کی طرف سے پکڑ تو نہ ہو گی ؟جبکہ رسول اللہﷺ نے سختی سے پیشاب کے قطروں سے بچنے کی تاکید کی ہے ۔ جسم تو جہاں جہاں قطرے گرے ہوں تو وہاں سے صاف کیا جا سکتا ہے مگر کپڑوں کا کیا کریں؟ کپڑوں پر گرنے والے قطرے نہ ہی نظر آتے ہیں نہ ہی محسوس کیے جا سکتے ہیں مگر جب پنڈلیوں یا کولہوں پر قطرے آئیں گے تو کپڑوں پر قطروں کا آنا بھی لازم ہے ۔ آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

    جواب نمبر: 179768

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:21-17/L=01/1442

     احادیث میں پیشاب سے بچنے کی بے حد تاکید آئی ہے ،اور احتیاط نہ کرنے والوں کے لئے عذابِ قبر کی وعید بیان کی گئی ہے ؛اس لئے پیشاب کرتے وقت احتیاط کی جائے ، اور اس میں ہرگز سستی نہ برتی جائے اور پیشاب سے فراغت کے بعد ڈھیلے یا ٹیشو پیپر سے پیشاب کو اچھی طرح سکھالیا جائے تاکہ پیشاب کے قطرے جسم وغیرہ پر نہ لگیں ،اوراگر انگلش سیٹ کی وجہ سے پیشاب سے احتیاط میں دشواری ہوتی ہو تو سادہ سیٹ کا انتظام کیا جائے ،جہاں تک بدن اور کپڑوں کی پاکی کا مسئلہ ہے ،توبدن کوتوآپ صاف کر ہی لیتے ہیں ،رہا مسئلہ کپڑوں کی پاکی کاتواگر کپڑوں پر پیشاب کے قطرات کے لگنے کا یقینی علم ہے ،مگر آپ کو جگہ اور قطرات کی مقدار معلوم نہیں تو ایسی صورت میں جس جگہ نجاست کے لگنے کا ظن غالب ہو اس کو دھولیا کریں اور بہتر اور احتیاط اس میں ہے کہ اس سائڈ کے پورے حصے کو تین بار دھوکر اچھی طرح سے نچوڑ دیاکریں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے ۔

    عن ابن عباس،قال: مر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی قبرین:انہما یعذبان،وما یعذبان فی کبیر،اما ہذا فکان لا یستنزہ من البول الخ (ابوداؤد:1/ 6)ولو أن ثوبا أصابتہ النجاسة - وہی کثیرة - فجفت، وذہب أثرہا، وخفی مکانہا؛ غسل جمیع الثوب وکذا لو أصابت أحد الکمین ولا یدری أیہما ہو؛ غسلہما جمیعا، وکذا إذا راثت البقرة أو بالت فی الکدیس ولا یدری مکانہ؛ غسل الکل احتیاطا، وقیل: إذا غسل موضعا من الثوب - کالدخریص ونحوہ - وأحد الکمین وبعضا من الکدیس یحکم بطہارة الباقی، وہذا غیر سدید؛ لأن موضع النجاسة غیر معلوم، ولیس البعض أولی من البعض.[بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 1/ 81)و"فی فتح القدیر"من باب الانجاس مایوضحہا،فنسوق عبارتہ بتمامہا،قولہ:تطہیر النجاسة واجب بقدر الامکان،واما اذا لم یتمکن من الازالة لخفاء خصوص المحل المصاب مع العلم بتنجیس الثوب،قیل:الواجب غسل طرف منہ،فان غسلہ بتحر اوبلا تحر طہر(الاشباہ والنظائر:القاعدة الثالثة/ص/184/ط زکریا) وفی"الظہیریة":ثوب فیہ نجاسة لا یدری مکانہا یغسل الثوب کلہ،وہو الاحتیاط(المصدر السابق) ونصہا:ذکروا ان التطہیر یکون بغسل وجری الماء علی نحو بساط، ودخولہ من جانب وخروجہ من اخر بحیث یعد جاریا، وغسل طرف ثوب نسی محل نجاستہ،(رد المحتار:۱/ ۱۵/۷ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند