• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 168137

    عنوان: مصنوعی جنسی کھلونے کا استعمال اور اس سے وجوب غسل کا حکم

    سوال: (۱) آج کل کے نوجوان اور لڑکیاں اپنی جنسی ہوس کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی جنسی کھلونوں) sex (toysکا سہارا لیتے ہیں اگر دوران استعمال انزال ہو جائے تو غسل واجب ہو گا یا نہیں؟ (۲) حشفہ کے دخول پر غسل واجب ہوتا ہے کیا یہ اس وقت بھی لاگو ہو گا جب مصنوعی کھلونے کا کچھ حصہ عورت کی فرج میں داخل ہو گا ؟ (۳) نیز مرد کا حشفہ اگر مصنوعی کھلونے (مصنوعی فرج) میں غائب ہو جائے تو کیا اس سے بھی غسل واجب ہو گا ؟ (۴) مذکورہ بالا نمبر 2 اور 3 میں غسل کا وجوب حشفہ کے غائب ہونے سے (چاہے وہ مصنوعی فرج ہو یا مصنوعی کھلونے کے حشفہ کا عورت کی فرج میں دخول ہو )ہو گا یا انزال سے ؟ (۵) کیا اس فعل میں گناہ کامادہ پایا جاتا ہے ؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیے ۔

    جواب نمبر: 168137

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:488-120T/SN=8/1440

    (1) جی ہاں! اس دوران انزال ہوجائے تو غسل واجب ہوگا(2) بہ غرض حصول لذت اگر عورت ایسا کرے تو بعد از دخول اس پر شرعا غسل واجب ہے (امداد الاحکام: ۱/ ۳۵۹، کراچی) (3) اس صورت میں بلا انزال غسل واجب نہ ہوگا(4) اس کا جواب سوال ایک اور دو کے جواب میں آچکا ہے۔

    (و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمی وذکر خنثی ومیت وصبی لایشتہی وما یصنع من نحو خشب (فی الدبر أو القبل) علی المختار...(بلا إنزال) لقصورالشہوة أما بہ فیحال علیہ.

    .... (قولہ: علی المختار) قال فی التجنیس: رجل أدخل إصبعہ فی دبرہ وہو صائم اختلف فی وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلة للجماع فصار بمنزلة الخشبة ذکرہ فی الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل فی القبل إذا قصدت الاستمتاع ؛لأن الشہوة فیہن غالبة فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح أفندی... (قولہ: أما بہ) أی أما فعل ہذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال. (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار)1/ 304،305،ط: زکریا)

    (5) جی ہاں! ایسا کرنا ناجائز اور گناہ ہے، شریعت نے قضائے شہوت کا محل بیوی(اور باندی) کو بنایا، اس کے علاوہ قضائے شہوت کے لئے کسی اور محل کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

    وکذا الاستمناء بالکف وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ....

    بقی ہنا شیء وہو أن علة الإثم ہل ہی کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لوأدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہی سفح الماء وتہییج الشہوة فی غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ وأما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوة إلخ؟ لم أر من صرح بشیء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ فی حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارة یأثم أیضا ویدل أیضا علی ما قلنا ما فی الزیلعی حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ”والذین ہم لفروجہم حافظون“(المؤمنون: 5)الآیة وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أی بالزوجة والأمة اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أی قضاء الشہوة بغیرہما ہذا ما ظہر لی واللہ سبحانہ أعلم. (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/371،ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند