معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری
سوال نمبر: 609749
شریک کی لی ہوئی تنخواہ شرکا میں کس طرح تقسیم کی جائے
پاکستان سے سلام عرض ہے۔ احقر ملازمت و کاروبار میں احکام الہی کی پابندی کی کوشش کرتا ہے۔ تمام تر احتیاط کے باوجود چند سال میں نے ایک سکول یوں چلایا کہ ہم تین دوستوں کی شراکت تھی لیکن کام صرف میں کرتا تھا۔ باقی دو باقاعدہ کام نہیں کرتے تھے کبھی کبھار مشاورت یا کسی مدد کیلئے آتے تھے۔ ہماری باہمی مشاورت سے طے ہوا تھا کہ اسلامی احکام کے مطابق نفع نقصان کی تقسیم جاری رہے گی اور مجھے کام کی تنخواہ بھی ملے گی جبکہ باقی دو کو نہیں۔ سب کی رضامندی سے یہ ہوتا رہا۔ پھر میں سرکاری ملازمت میں آ گیا اور سکول چلانے کا کام کسی اور کے سپرد کر دیا۔ اب جامع بنوریہ کراچی کا فتوی پڑھا کہ" شریک اجیر نہیں بن سکتا، کام کی وجہ سے اضافی منافع لے سکتا ہے۔" متعلقہ سائٹ پر انہوں نے سوالات لینا بند کیا ہوا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ میں اب کیا کروں؟ گزشتہ سالوں کی کمائی کیا ساری ناجائز ہو گئی، جبکہ احتیاط اور معلومات لینے کے باوجود یہ غلطی ہوئی جس پر مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے کہ ہمیشہ حلال کی کوشش کرتے کرتے یہ کیا سرزد ہو گیا۔۔۔! ان سالوں کی کمائی کی کراہت ختم کرنے کا یا ازالہ کا طریقہ ارشاد فرمائیے گا۔ نیز یہ بھی کہ اب جو خاتون سکول چلانے کیلئے رکھی ہے، اسے بھی شریک بنایا ہے اور اجیر بھی۔ اس طریقہ کو ختم کرنے کا مناسب طریقہ بھی بتائیے گا۔ جزاک اللہ۔
جواب نمبر: 609749
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 497-432/H-Mulhaqa=8/1443
(۱، ۲): جی ہاں! راجح ومفتی بہ قول یہی ہے کہ شرکت کے کاروبار میں شریک اجیر نہیں بن سکتا؛ البتہ اگر کوئی شریک دوسرے شرکا سے زیادہ محنت کرتا ہے تو اس کے نفع کا فیصد زیادہ مقرر کیا جاسکتا ہے، اور شریک کا اجارہ محض فاسد نہیں؛ بلکہ باطل ہوتا ہے؛ لہٰذا آپ نے اب تک تنخواہ کے نام پر جو پیسہ لیا ہے، وہ طے شدہ فیصد کے مطابق تمام شرکا کے درمیان تقسیم کیا جائے، اور اگر آپ کے شرکا اپنی مرضی وخوشی سے اپنے حصہ میں سے آپ کو کچھ ہبہ کردیں تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ اور فی الحال جو خاتون اسکول چلارہی ہے، اگر اس نے اسکول میں سرمایہ کاری کرکے شریعت کے مطابق شراکت داری کی ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا، جو اوپر لکھا گیا ،اور آیندہ یہ کیا جائے کہ نفع میں خاتون کا فیصدی حصہ بڑھادیا جائے۔
)ولو) استأجرہ (لحمل طعام) مشترک (بینھما فلا أجر لہ)؛ لأنہ لا یعمل شیئاً لشریکہ إلا ویقع بعضہ لنفسہ، فلا یستحق الأجر إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ۹:۸۲، ۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) وانظر حاشیة ابن عابدین علیہ أیضاً۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند