• معاملات >> شیئرز وسرمایہ کاری

    سوال نمبر: 603458

    عنوان:

    شراکت میں تجارت کی ایک شکل

    سوال:

    زید تاجر ہے أس نے کہا کہ تجارت میں رقم لگانا ہے تو لگالو ، میں (زید مالک) جو جتنی رقم دیں گے ، میں أسمیں سے ان کو ۰۳تا ۵۳فیصد اضافہ رقم دوں گا۔ اوروہ دونوں آپسی رضامندی سے طے کیا ہے ، شرعی حکم سے رہنمائی فرمائیں۔کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟حزاکم اللہ

    جواب نمبر: 603458

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:655-206/sn=8/1442

     کاروبار میں رقم لگانے کی مذکور فی السوال شکل شرعا جائز نہیں ہے، اس طرح کی شراکت کے لئے ضروری ہے کہ نفع کا حصہ فیصد کے حساب سے حتمی طور پر طے ہو، مثلا: دس فیصد، بیس فیصد، متردد نہ ہو کہ 30 سے 35 فیصد اور یہ مقدار حاصل ہونے والے مجموعی نفع میں سے ہو، اصل رقم سے نہ ہو، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اصل رقم کی ضمانت نہ ہو ؛ بلکہ نقصان کی شکل میں ہر ایک بہ قدر سرمایہ برداشت کرنے پرآمادہ ہو۔

    ... ثم یقول: فما کان من ربح فہو بینہما علی قدر رء وس أموالہما، وما کان من وضیعة أو تبعة فکذلک، ولا خلاف أن اشتراط الوضیعة بخلاف قدر رأس المال باطل إلخ(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/475، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)

    فنقول: إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا، فلا شک أنہ یجوز، ویکون الربح بینہما علی الشرط سواء شرطا العمل علیہما أو علی أحدہما، والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال، وإن کان المالان متساویین فشرطا لأحدہما فضلا علی ربح ینظر إن شرطا العمل علیہما جمیعا جاز، والربح بینہما علی الشرط فی قول أصحابنا الثلاثة، وعند زفر لا یجوز أن یشترط لأحدہما أکثر من ربح مالہ (بدائع الصنائع:5/83، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند