• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 69570

    عنوان: الٹی ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے كیا؟

    سوال: میرے ایک دوست ہیں ان کی بہن کے ساتھ رمضان المبارک میں کچھ مسئلہ پیش آیا جس کے متعلق پوچھا تھا: (۱) رمضان میں ان کو روزہ کی حالت میں طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے الٹی ہوگئی، تو انہوں نے سمجھا کہ روزہ ٹوٹ گیا اور کھانا پینا کرلیں، پوچھنا یہ ہے کہ کیا روزہ کی حالت میں الٹی ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور ان کو اس روزہ کا کیا کفارہ ادا کرنا ہوگا؟ (۲) اِسی رمضان میں ان کا روزہ جو الٹی کی وجہ سے ٹوٹا تھا اس کے دوسرے دن اس نے روزہ رکھنا چاہا اور اس نے رات میں کھانا نہیں کھائی، طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اور سوچا کہ سحری میں اٹھ کر کھاوٴں گی اور اللہ سے مانگ کر سوئی کہ اللہ اٹھا دے گا اور جب صبح آنکھ کھلی تو 4:30 ہو چکا تھا جبکہ سحری کا آخری وقت 3:30 بجے کا تھا، جب انہوں نے گھڑی دیکھی تو سحری کا وقت ختم ہو چکا تھا، اور وہ خوب روئی، اور اللہ کے سامنے ہی اور غصہ میں پانی پی لیا، اور خوب روتے ہوئے فجر پڑھی اور روتے روتے سوگئی۔ رونے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کو بول کر سوئی تھی مگر اللہ نے اٹھایا کیوں نہیں، اور غصہ کی حالت میں پانی پی لیااور پھر توبہ استغفار کی اور اپنی کمی کوتاہی اللہ کے سامنے رکھی۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس روزہ کے بدل میں کتنا روزہ اور کفارہ ہے؟ اور بات یہ ہے کہ ان کا ارادہ سحری کھا کر روزہ رکھنے کا تھا۔ اور ایک بات انہی کی ہے کہ اُن کی امی جان بیمار تھیں کچھ سال پہلے تو وہ منت کا روزہ مانی تھی 20 اور کسی وجہ سے مانی تھیں مگر رکھ نہیں پائی، 60 ہوگیا․․․ اس میں سے ابھی تک 7-8 رکھ سکی ہے اور 5 سے 6 سال بھی ہوگیا ہے، وہ روزے رکھنا چاہتی ہے گھر والے رکھنے نہیں دیتے ہیں اور ہمت بھی نہیں کر پاتیہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس کا کوئی بدل ہے ؟کیا اس روزہ کا کیا کر سکتی ہے؟ رکھنا ضروری ہے تو کیسے کیا کرے؟ کچھ اور راستہ ہوتو بتائیں یا روزہ ہی رکھنا ہے تو بتائیں۔ (۳) واقعہ کے بارے میں پوچھاہے ، ایک ہی شخص کی بات ہے تفصیل سے سب کے بارے میں علیحدہ علیحدہ بتائیں۔

    جواب نمبر: 69570

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1297-1512/H=2/1438

     

    (۱) اگر الٹی ہوجانے پر یہ سمجھی کہ روزہ ٹوٹ گیا اور پھر عمداً کھا پی لیا تو ایسی صورت میں کفارہ واجب نہیں بلکہ توڑے ہوئے روزہ کی قضاء واجب ہے ”ولو ذرعہ القیء فظن أنہ یفطرہ فافطر لاکفارة علیہ وإن علم أن ذالک لایفطرہ فعلیہ الکفارة کذا فی البحر الرائق اھ“ فتاوی الہندیة: ۱/۲۰۶۔

    (۲) اس صورت میں بھی صرف قضاء واجب ہے کفارہ واجب نہیں۔

    (۳) اگر ساٹھ روزوں کی منت مانی اور جس کام کے ہونے پر روزوں کا رکھنا معلق کیا تھا وہ کام ہوگیا خواہ ایک کام تھا یا زیادہ تو وہ ساٹھ روزے رکھنا واجب ہیں کئی سال گذرنے پر بھی یہی حکم ہے کہ روزوں کا رکھنا ہی واجب ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند