عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 68295
جواب نمبر: 68295
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 802-152/D=9/1437 پہلے ہم وہ حدثی نقل کرتے ہیں پھر اس کا مطلب تحریر کرتے ہیں عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا سمع أحدکم النداء والإناء فی یدہ فلایضعہ حتی یقضی حاجتہ منہ (ابو داوٴد: رقم ۲۳۵۰) ترجمہ: حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے جب کوئی اذان سن لے او ربرتن اس کے ہاتھ میں ہو وہ اس کو نہ رکھے(نہ چھوڑے) یہاں تک کہ اپنی ضرورت پوری کرلے“۔ مذکورہ حدیث میں ”نداء“ کا لفظ مطلقاً بغیر کسی قید کے آیا ہے، اگر ”نداء“ سے مراد اذان مغرب ہوتو کوئی اشکال نہیں ہوسکتا اور اگر نداء سے حضرت بلال کی اذان مراد ہو جیساکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان بلالاً یوٴذن باللیل فکلوا واشربوا حتی یوٴذن ابن ام کلثوم تو بھی اس حدیث کا معنی واضح ہے کیونکہ حضرت بلال لوگوں کو سحری کے لئے جگانے کے واسطے اذان دیتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو باخبر کیا کہ حضرت بلال کی اذان سن کر کھانا پینا چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر ”نداء“ سے مراد اذان فجر ہوتو اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اصل مدارِ حکم طلوع فجر ہے نہ کہ اذان فجر، کیونکہ کبھی موٴذن وقت سے پہلے بھی اذان دے سکتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متوجہ کیا کہ طلوع فجر نہ ہونے کی صورت میں تمہارا کھاتے رہنا مضائقہ نہیں رکھتا․․․․․ آپ نے صحیح نہیں سمجھا نیت شریعت کے حکم کے مطابق درست ہونا چاہئے، شریعت کے حکم کے خلاف اچھی نیت سے بھی کام کیا جائے گا تو بھی غلط کہلائے گا۔ (۲) اتفاقیہ معاملہ ہے ․․․․ یہ بھی غلط سمجھے، حدیث کا صحیح مطلب وہی ہے جسے محدثین نے لکھا ہے او رہم نے اوپر نقل کر دیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند