• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 67806

    عنوان: کیا روزے کی نیت سحری کے بعد کی جاسکتی ہے

    سوال: کیا روزے کی نیت سحری کے بعد کی جاسکتی ہے کسی مجبوری کی وجہ سے؟ اگر کی جاسکتی ہے تو کس وقت تک؟ میں نے پڑھا ہے کہ زوال سے پہلے پہلے کرسکتے ہیں، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ براہ کرم ہمیں جواب سے مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 67806

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1031-1055/N=10/1437

    (۱، ۲):رمضان کا روزہ، نذر معین کا روزہ اور نفل روزہ، ان تین کی نیت سحری کے بعد بھی کرسکتے ہیں اور نیت کا آخری وقت نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے ہے، نصف النہار شرعی پر یا اس کے بعد نہیں کرسکتے ۔ اور نصف النہار شرعی یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہیں، انھیں دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلا حصہ نصف النہار شرعی ہوگا اور اس سے پہلے پہلے نیت کی اجازت ہوگی،مثلاً : دیوبند میں آج کی تاریخ میں صبح صادق ۴۲: ۳ پر اور غروب آفتاب ۲۵: ۷ پر ہے، دونوں کے درمیان کل ۱۵/ گھنٹے اور ۴۳/ منٹ ہوتے ہیں، پس آج کی تاریخ میں دیوبند میں اگر ۳۳: ۱۱ سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرلی گئی تو وہ معتبر ہوگی اور روزہ ہوجائے گا۔ اور زوال آفتاب اس وقت ہوتا ہے جب سورج بیچ آسمان میں پہنچ کر مغرب کی طرف ڈھلنا شروع کردے اور اس میں نصف دن کا اعتبار طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اعتبار سے ہوتا ہے، یعنی: دونوں کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی زوال آفتاب کا وقت ہوتا ہے؛ اس لیے آپ نے کسی کتاب یا رسالہ میں جو زوال آفتاب تک نیت کی گنجائش پڑھی، یہ صحیح نہیں، نیت کا وقت زوال سے کافی پہلے (یعنی:نصف النہار شرعی سے کچھ پہلے )ختم ہوجاتا ہے، فیصح أداء صوم رمضان والنذر المعین والنفل بنیة من اللیل، …… إلی الضحوة الکبری لا بعدھا ولا عندھا اعتباراً لأکثر الیوم (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الصوم ۳: ۳۳۸-۳۴۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”إلی الضحوة الکبری“ المراد بھا نصف النھار الشرعي، ……النھار الشرعي من طلوع الفجر إلی الغروب(رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند