عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 66376
جواب نمبر: 66376
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 946-1049/N=10/1437 (۱) : رحیمی دوامی جنتری کے حساب سے اذان فجر میں پانچ منٹ کی احتیاط ناکافی ہے ؛ بلکہ کم از کم دس منٹ کی احتیاط چاہیے۔ اور یہ احتیاط لازم ہے، محض مستحب نہیں ہے؛ کیوں کہ جدید فلکی حسابات کی روشنی میں جو جنتریاں تیار کی گئی ہیں، جیسے: جناب عبد الحفیظ منیار صاحب سورت کی برائے دیوبند تیار کردہ جنتری اور جناب انس صاحب کی دائمی اوقات الصلوة کی روشنی میں دیوبند کے لیے تیار کردہ جنتری، ان کا جب قاسمی دوامی جنتری (جو رحیمی دوامی جنتری اور دوامی اشرف التقویم اوقات نماز وغیرہ کے تقریبا مکمل طور پر موافق ہے) سے موازنہ کیا گیا تو اکثر تاریخوں میں پانچ سے زائد منٹ کا فرق ظاہر ہوا، یعنی: جدید جنتریوں میں صبح صادق کا وقت قدیم جنتریوں سے پانچ، سات منٹ کے بعد ہے، بالخصوص مئی کے اواخر، جون اور جولائی میں؛ بلکہ جناب عبد الحفیظ منیارصاحب سورت کی جنتری کے حساب سے بعض تاریخوں میں ۸ اور بعض میں ۹/ منٹ کا فرق نکلا، جب کہ یہ ساری جنتریاں ۱۸/ ڈگری صبح صادق کے حساب پر تیار کی گئی ہیں؛ اس لیے جدید جنتریوں کی رعایت میں اذان فجر میں کم از کم پانچ منٹ کی احتیاط ناکافی ہے، کم از کم دس منٹ کی احتیاط ضروری ہے ؛ بلکہ حضرت مولانا تھانوی نے تو اپنے زمانے میں جب کہ یہ جدید جنتریاں نہیں آئی تھیں اذان فجر میں کم از کم دس منٹ کی احتیاط لازم قرار دی ہے ۔ چناں چہ حضرت والا رحمہ اللہ ”دوامی اشرف التقویم اوقات نماز“ کے شروع میں تحریر فرماتے ہیں : ” نقشہ ہذا میں صبح صادق کا جو وقت درج ہے، وہ اصول علم ہیئت جدید اور مشاہدہ سے بالکل ابتدائے صبح ہے، مگر احتیاطاً یہ لازمی ہے کہ صبح کی اذان اس سے کم از کم دس منٹ بعد کہی جائے، سحری ۲۰ منٹ پہلے ختم کردی جائے، اس میں بد احتیاطی سے کام نہ لیا جائے۔ “ اسی طرح ختم سحر میں بھی کم از کم آٹھ دس منٹ کی احتیاط کی جائے، حضرت مولانا تھانوی نے تو کم از کم بیس منٹ کی احتیاط بتائی ہے (جیسا کہ اوپر گذرا)، لیکن چوں کہ اس میں عوام کے لیے حرج ہے اور ۱۸/ ڈگری کے حساب پر تیار کردہ کسی جدید جنتری میں ان قدیم جنتریوں سے پہلے وقت سحر ختم نہیں ہوتا، البتہ بعض قدیم جنتریوں میں کچھ منٹ کا فرق ہے اور گھڑی کا مکمل طور پر صحیح ہونا بھی ضروری نہیں ہے ؛ اس لیے دس منٹ بہر حال احتیاط چاہئے، اس سے زیادہ احتیاط نہ کرنے میں کچھ حرج نہیں؛ کیوں کہ حضرت مولانا تھانوی نے ایک جگہ صرف دس پندرہ منٹ کی احتیاط تحریر فرمائی ہے ۔ چناں چہ حضرت والا بوادر النوادر (ص ۴۲۹ ) میں نقشہ: الساعات للطاعات کے بعد تنبیہات متعلقہ اوقات نماز وروزہ کے عنوان کے تحت، تنبیہ نمبر۹ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں: ” اگر سب میں مناسب احتیاط کرلی جاوے تو عملی غلطی سے حفاظت رہے گی؛ مثلاً صبح صادق کا جو وقت نقشہ میں ہے، اس سے دس یا پندرہ منٹ پہلے سحری چھوڑدیں“ ۔ اور ختم سحر اور اذان فجر میں یہ احتیاط اس لیے بھی اہم وضروری ہے کہ حسابی نقطہ نظر سے تیار کی جانے والی جنتریاں محض ظنی وتخمینی ہوتی ہیں، قطعی ویقینی نہیں ہوتیں اور روزہ، نماز اور اذان سب میں احتیاط ضروری ہے، احتیاط بالائے طاق رکھ کر ماہ رمضان کے روزے مشکوک کرنا یا اذان اور نمازمشکوک کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز روزہ کے معاملہ میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔ “ (احسن الفتاوی ۲: ۱۹۱، مطبوعہ: ایچ، ایم، سعید کراچی) ۔ فقہائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ صحیح قول کے مطابق شک وتردد کے ساتھ سحری میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، ومحل الاستحباب إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل فی الصحیح کما فی البدائع أیضاً ( رد المحتار، کتاب الصوم ۳: ۴۰۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریادیوبند)، ویکرہ تأخیرہ إلی وقت یقع فیہ الشک، ھندیة (حاشیة الطحطاوي علی المراقیص ۶۸۳ مطبوعہ: دار الکتب العلمیة، بیروت) ۔ فتاوی رشیدیہ (ص ۴۶۲، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند) میں ہے: ”سحری کھانے کے اندر تاخیر مستحب ہے اور ایسی تاخیر کہ جس سے شک واقع ہوجائے، اس سے بچنا واجب ہے“ ۔ فتاوی محمودیہ (۵: ۳۶۲، سوال: ۲۱۵۷، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل) میں مختلف اوقات کی جنتریوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ہے: ”اگر سحری صبح کے وقت مشتہرسے قبل ختم کردی جائے اور نماز فجر اسفار میں ادا کی جائے جو کہ اصل مذہب ہے تو کوئی خدشہ نہ رہے یا اسفار میں نہ ہو تو کم از کم اتنا تو لحاظ کرلیا جائے کہ یہ#خدشہ دفع ہوکرنماز بالتعیین صحیح وقت پر ادا ہو۔ “ اسی لیے گذشتہ سال (شعبان۱۴۳۶ھ میں) حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم (مفتی دار العلوم دیوبند) نے دار الافتا کے دیگر مفتیان کرام سے مشورہ کے بعد حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم (مہتمم دار العلوم دیوبند) کی خدمت میں یہ تحریر فرمایا: ”دار العلوم کی طرف سے شائع ہونے والے نقشہ اوقات سحر وافطار میں وقت اذان فجر کا ایک خانہ بڑھادیا جائے اور منتہائے سحر سے دس منٹ بعد اذان فجر کا وقت درج کردیا جائے اور نوٹ میں یہ لکھ دیا جائے : اذان فجر کا وقت احتیاطاً ختم سحر کے دس منٹ بعد درج کیا گیا ہے۔ “ کیوں کہ اس صورت میں احتیاط بھی ہے، اور دیگرجنتریوں کے حساب سے بھی ہر موسم وتاریخ میں فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے؛ چناں چہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے دار الافتا کی تجویز قبول فرماتے ہوئے متعلقہ شعبہ کو اس کا حکم صادر فرمایا اورگذشتہ سال اور امسال بھی دار العلوم کے نقشہ اوقات سحر وافطار میں اذان فجر کا خانہ بڑھایا گیا اور یہ نوٹ بھی تحریر کیا گیا : ” اذان فجر کا وقت احتیاطاً ختم سحر کے دس منٹ بعد درج کیا گیا ہے۔ “ اور جب مظاہر علوم سہارن پور کے مفتیان کرام اور ذمہ دار حضرات کو اس کا علم ہوا تو ان حضرات نے بھی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اسے قبول فرمایا اور ان حضرات نے بھی اپنے یہاں سے شائع ہونے والے نقشہ اوقات سحر وافطار میں اذان فجر کے خانہ کا اضافہ فرمایا اور اس میں منتہائے سحر سے دس منٹ کے بعد اذان فجر کا وقت درج کروایا۔ (۲) : آپ کے یہاں بعض یا اکثر مساجد میں اگر رحیمی دوامی جنتری کے حساب سے وقت سحر ختم ہوتے ہی اذان فجر کہہ دی جاتی ہے اور اذان کے فوراً بعد لوگ سنتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو یہ طریقہ صحیح نہیں، قابل اصلاح ہے، اس صورت میں اذان اور سنتیں دونوں مشکوک ہوتی ہیں؛ اس لیے ختم سحر سے کم از کم دس منٹ بعد ہی اذان کہی جائے اور اس کے پانچ یا دس منٹ بعد نماز فجر شروع کی جائے تاکہ اذان اور نماز دونوں یقینی طور پر فجر کا وقت شروع ہوجانے کے بعد ہوں، نیزبعض حضرات فجر کا وقت تبین صبح صادق پر مانتے ہیں؛ اس لیے بھی ختم سحر سے کم از کم دس منٹ کے بعد ہی اذان کہنی جائے۔ (۳) : اذان فجر میں ختم سحر سے کم از کم دس منٹ احتیاط کی جائے، اس سے کم احتیاط ناکافی ہے جیسا کہ اوپر نمبر ایک میں تفصیل سے ذکر کیا گیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند