• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 66106

    عنوان: کیا صیح صادق اور ختم سحر کا وقت الگ الگ ہے ؟

    سوال: میں اس کی وضاہت چاہتا ہوں کہ کیا صیح صادق اور ختم سحر کا وقت الگ الگ ہے ؟ ہمارے یہاں مساجد میں جو اوقات نماز کا بورڈ لگا ہوتا ہے اس میں یہ دونوں ایک ساتھ لکھے ہوتے ہیں اور جو وقت لکھا جاتا ہے وہ تقویم کے وقت سے ۶ منٹ قبل کا ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ہی لاوڈسپیکر سے اعلاں کیا جاتا ہے جو کہ اصل وقت سے چھ منٹ قبل ہوتا ہے کہ سحر کا وقت ختم ہو گیا ہے جبکہ ابھی چھ منٹ باقی ہیں؛ زید اس اعلان کے وقت بیدار ہوا وہ یہ سوچ کر کہ سحر نہیں کی اور پست ہمتی کی وجہ سے روزہ قضا کر دیتا ہے حا لانکہ ایک گلاس دوھ پیکر روزہ رکھ سکتا تھا اس نے یہ سمجھ کر کر کہ کھانے کا وقت ختم ہو گیا قضا کردی؛ بکر بیمار ہے اور اسکو سحری میں دوا کھانی ہو تی ہے دوا نہ کھا سکنے کی وجہ سے روزہ قضا کر دیا حا لانکہ اسکے پاس بھی دوا کھانے کا وقت تھا اور وہ روزہ رکھ سکتا تھا؛ اس صورت میں ان کے روزہ قضا کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ اسکے علاوہ غیر رمضاں کے مہینوں میں بھی اسی طرح اوقات لکھے جاتے ہیں اور اکژ مساجد میں اذاں کے اوقات کا لحاظ کئے بغیر فجر کی اذان وقت سے چھ منٹ قبل ہو جاتی ہے کیونکہ جو کوئی مسجد میں آیا اس نے بورڈ پر وقت دیکھ کر اذان دیدی اور گھر میں موجود خواتیں جو اذان کے انتظار میں تھیں نماز ادا کرلی۔ دیگر یہ کہ ایک شخص کو سفر کرنا تھا ا نے بھی اذان کے ساتھ ہی نماز ادا کرلی دیگر لوگوں نے سنت ادا کرلی۔ میرے ذہن میں یہ خدشات ہیں انکا کیا حل ہے اور کن حضرات کی اس میں کیا ذمہ داری ہے ؟ وضاحت فرمائیں۔ اس سے جڑا ہوا ایک سوال یہ ہے کہ سحر کے وقت رات کے ایک بجے سے لاوڈسپیکر پر کوئی دینی واعظ بلند آواز میں لگا دیا جا تا ہے اور اس طرح کے اعلان مختلف جگہ سے ہوتے رہتے ہیں کہ اب اتنا وقت باقی ہے اور چھ منٹ قبل اعلاں ہو تا ہے کہ وقت ختم ہوگیا کھا نا پینا بند کردیں؛ جواب رمضاں المبارک شروع ہونے سے قبل مل جائے تو نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 66106

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 734-854/Sd=10/1437 (۱) اصلا تو صبح صادق اور ختم سحر کا وقت ایک ہی ہے، لیکن نماز اور روزے کے معاملے میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنا ضروری ہے، آپ کے یہاں کی مساجد میں اگر صبح صادق اور ختم سحر کا وقت اصل وقت سے ۶/ منٹ قبل ایک ساتھ لکھا ہوا ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے، اس سے لوگوں کی نمازیں مشکوک ہوجائیں گی، ختم سحری کا وہی وقت لکھنا چاہیے جو اصل صبح صادق کا ہے، البتہ نوٹ میں یہ لکھنے میں مضائقہ نہیں کہ احتیاطا سحری اصل وقت سے پانچ منٹ پہلے بند کر دی جائے، نیز اذان فجر کا وقت احتیاطا صبح صادق سے الگ لکھنا چاہیے، اذان فجر کا وقت ختم سحری کے وقت سے احتیاطا دس منٹ بعد لکھنا چاہیے اور آخر میں نوٹ میں یہ لکھ دینا چاہیے کہ ”اذان فجر کا وقت احتیاطا ختم سحر کے دس منٹ بعد درج کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں دار العلوم سے شائع ہونے والے نقشہ اوقات سحر و افطار میں اذان فجر کا خانہ ختم سحری سے الگ مستقل بنایا گیا ہے اور منتہائے سحر سے دس منٹ بعد اذان فجر کا وقت درج کیا گیا ہے اور نوٹ میں یہ لکھ دیا گیا ہے: ”اذان فجر کا وقت احتیاطا ختم سحر کے دس منٹ بعد درج کیا گیا ہے “ اس سے لوگوں کو مسئلے کی صحیح نوعیت معلوم ہوجائے گی اور اذان فجر یقینی طور پر صحیح وقت پر دی جائے گی اور ختم سحر کا صحیح وقت بھی معلوم ہوجائے گا، مسئلہ کا اصل حل یہی ہے، مساجد میں ختم سحر کا اعلان جو اصل وقت سے پانچ منٹ قبل کر دیا جاتا ہے، وہ احتیاطا کیا جاتا ہے۔ (۲) رات کے ایک بجے سے لاوٴڈ اسپیکر پر دینی وعظ وغیرہ لگانا صحیح نہیں ہے، اس سے دوسروں کی ضرورت اور عبادت میں خلل ہوتا ہے، اس طریقہ کو بند کرنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند