عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 61021
جواب نمبر: 61021
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1014-1018/N=11/1436-U بہتر ہوتا کہ آپ اس حدیث کا عربی متن اور حوالہ درج کردیتے، جس میں روزہ کی حالت میں بیوی کو نگاہ بھر کر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے؛کیوں کہ ایسی کوئی حدیث اب تک میری نظر سے نہیں گذری، البتہ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ نے فضائل رمضان میں مشائخ کے حوالہ سے روزے کے آداب میں ایک ادب یہ نقل فرمایا ہے:نگاہ کی حفاظت کی کی جائے کہ کسی بے محل جگہ پر نہ پڑے حتی کہ کہتے ہیں کہ بیوی پر بھی شہوت کی نگاہ نہ پڑے (فضائل رمضان ص ۲۷) ، پس روزہ کی حالت میں بیوی کو شہوت کے ساتھ نہ دیکھنا از قبیل آداب ہے، ناجائز وحرام نہیں ہے۔ اور روزہ کی حالت میں شہوت کے ساتھ بیوی کا بوسہ لینا یا اسے گلے لگانا بھی ناجائز نہیں، اور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا، متعدد احادیث سے اس کا جواز اور انزال نہ ہونے کی صورت میں روزے کا نہ ٹوٹنا ثابت ہے، چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ وغیرہ لے لیا کرتے تھے، اور حضرت عمر سے روایت ہے کہ مجھ سے روزہ کی حالت میں اس طرح کا عمل ہوگیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر عرض کیا : آج مجھ سے ایک بھاری کام ہوگیا، میں نے روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی روزہ کی حالت میں منھ میں پانی لے کر کلی کردے تو کیا اس سے روزہ پر کوئی فرق پڑے گا؟ حضرت عمر نے فرمایا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس روزہ جاری رکھو۔ البتہ اگر انزال یا جماع کا اندیشہ ہو تو روزہ کی حالت میں بوسہ لینا یا گلے لگانا مکروہ ہے؛ اسی لیے بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو روزہ کی حالت میں بوسہ لینے سے منع فرمایا اور ایک عمر دراز صحابی نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دیدی قال في ملتقی الأبحر (مع المجمع والدر، کتاب الصوم ۱: ۳۶۱، ۳۶۲ ط دار الکتب العلمیة بیروت) : أو قبل أو لمس إن أنزل وٴفطر وإلا لا اھ وفی الدر المنتقی:أو قبل ولو قبلة فاحشة بأن یدغدغ أو یمص شفتیھا أو لمس ولو بحائل توجد معہ الحرارة إن أنزل لو منیاً أفطر فلو مذیا لا یفطر اھ وقال فی الدر (مع الرد، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یفسدہ ۳: ۳۶۷-۳۷۳ ط مکتبة زکریا دیوبند) :أو قبل ولم ینزل ……لم یفطراھ وقال فی البدائع (کتاب الصوم ۲: ۶۳۶، ۶۳۷ ط دار الکتب العلمیة بیروت) : ولا بأس للصائم أن یقبل ویباشر إذا أمن علی نفسہ ما سوی ذلک، أما القبلة فلما روي أن عمر رضي اللہ عنہ سأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم؟ فقال:”أرأیت لو تمضمضت بماء ثم مججتہ أکان یضرک؟“ قال: ”فصم إذن“، وفي روایة أخری عن عمر رضي اللہ عنہ أنہ قال:ھششت إلی أھلي، ثم أتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقلت: إني عملت الیوم عملاً عظیماً، إني قبلت وأنا صائم، فقال:”أرأیت لو تمضضت بماء أکان یضرک؟“ قلت: لا، قال:”فصم إذن“، وعن عائشة رضی اللہ عنھا أنھا قالت:”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وھو صائم“، وروي:أن شاباً وشیخاً سألا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن القبلة للصائم فنھی الشاب ورخص للشیخ، وقال:”الشیخ أملک لإربہ، وأنا أملککم لإربہ“، وفي روایة:”الشیخ یملک نفسہ“، وأما المباشرة فلما روي عن عائشة رضي اللہ عنھا ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یباشر وھو صائم، وکان أملککم لإربہ“ اھ وقال فی الدر (مع الرد ۳:۳۹۶منہ:وکرہ قبلة ومس ومعانقة …إن لم یأمن المفسد وإن أمن لا بأس اھ، وفی الرد: قولہ:”إن لم یأمن المفسد“:أي: الإنزال أو الجماع۔ إمداد، قولہ: ” وإن أمن لا بأس “ظاھرہ أن الأولی عدمھا، لکن قال فی الفتح: وفی الصحیحین أنہ علیہ الصلاة والسلام کان یقبل ویباشر وھو صائم، وروی أبو داود بإسناد جید عن أبي ھریرة أنہ علیہ الصلاة والسلام سألہ رجل عن المباشرة للصائم فرخص لہ وأتاہ آخر فنھاہ فإذا الذي رخص لہ شیخ، والذي نھاہ شاب اھ اھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند