• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 60574

    عنوان: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ علامہ انور شاہ کشمیری (رحمتہ اللہ علیہ ) نے ترمذی کے حاشیہ العرف شذی باب صفات صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل کے اندر فرماتے ہیں کہ ” صحاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی نماز آٹھ رکعت ہے“۔ اس کو لے کر غیر مقلدین حضرات فتنہ مچائے ہوئے ہیں، لہذا آپ سے گذارش ہے کہ معقول جواب مرحمت فرمائیں۔

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ علامہ انور شاہ کشمیری (رحمتہ اللہ علیہ ) نے ترمذی کے حاشیہ العرف شذی باب صفات صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل کے اندر فرماتے ہیں کہ ” صحاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی نماز آٹھ رکعت ہے“۔ اس کو لے کر غیر مقلدین حضرات فتنہ مچائے ہوئے ہیں، لہذا آپ سے گذارش ہے کہ معقول جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 60574

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 861-954/N=11/1436-U العرف الشذی میں یہ بات جس روایت کے تحت آئی ہے وہ یہ ہے: عن أبی سلمة أنہ سأل عائشة، کیف کانت صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان؟ فقالت: ما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی إحدی عشرة رکعة، یصلی أربعا، فلا تسأل عن حسنہن وطولہن، ثم یصلی أربعا․ الحدیث (ترمذی شریف ۱:۹۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی آئی ہے جیسا کہ العرف الشذی میں بھی اس کی صراحت ہے اور صحاح کی روایت سے غالبا اسی روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور اس روایت میں جس نماز کا ذکر آیا ہے اس سے مراد نماز تہجد ہے، نماز تراویح مراد نہیں ہے؛ اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فی رمضان کے ساتھ ”ولا فی غیرہ“بھی ارشاد فرمایا ہے؛ کیوں کہ تراویح کی نماز صرف رمضان میں مشروع ہے، جب کہ تہجد کی نماز پورے سال پڑھی جاتی ہے، نیز یصلی اربعًا کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جاتی تھی، جب کہ تراویح کی نماز دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہیں، اگرچہ چار رکعت ایک سلام کے ساتھ بھی جائز ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ روایت کتاب التہجد میں ذکر فرمائی اور باب کا عنوان یہ قائم فرمایا: باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی اس روایت سے تراویح کی آٹھ رکعت ہونے پر استدلال نہیں کیا ہے ؛ بلکہ چاروں میں سے کسی کے نزدیک ۲۰/ رکعت سے کم تراویح کی نماز نہیں ہے اور الکوکب الدری (۱:۳۸۸) کے حاشیہ میں فی رمضان کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ کے حوالہ سے ہے: قولہ: فی رمضان أي: في لیالیہ وقت التہجد فلا ینافیہ زیادة ما صلاہا بعد صلاة العشاء من صلاة التراویح اور فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں ہے: وفی الحدیث دلالة علی أن صلاتہ کانت متساویة في جمیع السنة (فتح الباري ۳: ۴۳ مطبوعہ: دار السلام الریاض) مزید تفصیل کے لیے تحفة الالمعی (۲: ۲۸۷- ۲۹۱) اور تحفة القاری (۳: ۴۷۰- ۴۷۵) دیکھیں، الحاصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے تراویح کی نماز آٹھ رکعت ہونے پر استدلال صحیح نہیں اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے جو بات ارشاد فرمائی ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ تراویح اور تہجد دونوں ایک نماز ہے، اگر یہ شروع میں پڑھی جائے تو تراویح ہے اور اگر آخر رات میں پڑھی جائے تو تہجد ہے جب کہ یہ حضرت کا تفرد ہے اور جمہور علماء کے خلاف ہے جیسا کہ خود علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے فیض الباری (۲: ۵۶۷ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں فرمایا ہے اور جمہور کا مذہب نصوص کے اشارات اور دلالات سے موٴید ہے، صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد آیا ہے: والتي ینامون عنہا أفضل من التي یقومون بہا، اس سے بھی دونوں میں تغایر ثابت ہوتا ہے اور حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے ایک مفصل فتوی میں اسے مدلل طور پر ثابت فرمایا ہے (فتاوی رشیدیہ ص ۳۶۶-۳۹۰) اس لیے علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے قول سے استدلال کرنا صحیح ودرست نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند