• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 604711

    عنوان:

    افطاری كرانے كےلیے دی گئی رقم اگر كچھ رقم بچ جائے تو وہ كسی دوسرے كام میں استعمال كی جاسكتی ہے یا نہیں؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ (۱) مجھے ایک شخص نے کچھ پیسے دیئے افطاری کے لئے اگر رمضان کے بعد کے کچھ رقم بچ جائے تو کیا میں ان رقم کو کسی دوسرے کام میں خرچ کرسکتا ہوں؟ (۲)اگر کسی نے کچھ رقم افطاری کے لئے دی مثلاً تین آدمی ہیں اور اگر کچھ رقم بچ جائے تو کیا تینوں آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں؟ (۳)اگر کسی نے مجھ سے کہا کہ فلاں کو سلام کہ دینا تو کیا میرے لئے سلام کا پہنچانا ضروری ہے ؟ (۴)کیا کسی غیر مسلم کو میں یہ کہہ سکتاہوں کہ میرے لئے دعا کرنا؟ ۵)کیا کسی غیر مسلم کو جزاک اللہ کہنا صحیح ہے ؟

    جواب نمبر: 604711

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 836-179T/D=10/1442

     (۱) اگر خود اپنی افطاری کرنے کے لئے دیا تھا ایسی صورت میں بچے پیسے اپنے دوسرے استعمال میں لا سکتے ہیں کیونکہ اس سے مقصد ہبہ اور ہدیہ دینا ہوتا ہے لہٰذا خاص افطاری ہی میں خرچ کرنا ضروری نہیں۔

    اور دوسرے کسی کو افطاری کرانے کے لئے دیا تھا تو پھر بچے پیسہ کے بارے میں دینے والے سے معلوم کرلیں خواہ اسے واپس کردیں یا اس کی ہدایت کے مطابق دوسری جگہ خرچ کریں۔

    (۲) اس میں بھی وہی تفصیل ہے کہ آپ تینوں آدمیوں کو افطاری کرنے کے لئے دیا تو بچے پیسے آپس میں بانٹ سکتے ہیں اور اگر دوسرے لوگوں کو افطاری کرانے کے لئے دیا تو پھر دینے والے سے معلوم کریں کہ بچے کے پیسے ہم کیا کریں؟

    (۳) جی ہاں پہونچانا بھی واجب ہے اسی لئے جس سے سلام بھیجوایا جارہا ہے بہتر ہے کہ اس سے یہ الفاظ مزید کہہ دے اگر یاد رہے تو فلاں سے میرا سلام کہہ دینا تاکہ اگر پہونچانے والے سے کوتاہی ہو تو وہ گنہگار نہ ہو۔

    (۴) غیر مسلم سے دعا کی درخواست کرنا کفر و شرک نہیں لیکن درخواست کرنے میں اس کا اکرام و اعزاز ہے اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے۔

    (۵) کسی مصلحت ضرورت یا دعوت و تبلیغ کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے غیر مسلم کو دعائیہ جملہ کہہ سکتے ہیں، جائز ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو ان الفاظ میں دعا دی۔ کثر اللہ مالک وولدک اصح جسدک وأطال عمرک۔ یا اسی طرح ہداک اللہ کہہ دیا جائے۔ مغفرت کی دعا دینا یا ایسی دعا دینا جس سے اس کا اعزاز ظاہر ہو نہ چاہئے، جیسے جزاک اللہ۔

    ولا بأس بالدعاء بما یصلحہ في دنیاہ (التفسیرات الاحمدیة، ص: 272)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند