عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 58503
جواب نمبر: 58503
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 247-247/Sd=5/1436-U وقت ہونے کے بعد ا فطار میں جاری کرنے کی احادیث میں بہت ترغیب آئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ یہ امت اس وقت تک بھلائی اور خیر پر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرنے کا اہتمام کرے گی، ایک دوسری حدیث میں افطار میں جلدی کرنے کی خصوصیت کے ساتھ انبیاء کی عادت واخلاق قرار دیا گیا ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول بھی افطار میں جلدی کرنے کا تھا؛ لیکن یہ حکم استحبابی درجے کا ہے، یعنی بلا عذر افطار میں تاخیر کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے؛ لہٰذا اگر دورانِ سفر پانی وغیرہ کچھ بھی مہیا نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر سے روزہ کھولنا پڑے، تو اس میں مضائقہ نہیں، اس کی وجہ سے روزے میں کوئی کراہت نہیں آئے گی، تاہم سفر میں پہلے ہی سے ا فطار کے لیے کچھ انتظام کرکے چلنا چاہیے تاکہ تعجیل افطار کی فضیلت فوت نہ ہو۔ قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر․ (البخاري: ۱/۲۶۳) وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أحبُّ عبادي إليّ أعجلہم فطرًا (ترمذي: ۱/۱۵۰) وقال ابن عبد البر: أحادیث تعجیل الإفطار وتأخیر السحور وصحاح متواترة، وعند عبد الرزاق وغیرہ بإسناد صحیح عن عمرو بن میمون الأودي قال: کان أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم أسرع الناس إفطارًا وأبطوٴہم کورًا․ (فتح الملہم: ۵/۲۱۳) وقال الحصکفي: ویستحب تعجیل الفطر لحدیث: ثلاث من أخلاق المرسلین: تعجیل الإفطارقال ابن عابدین: قولہ: ”وتعجیل الفطر“ ولا یفطر ما لم یغلب علی ظنہ غروب الشمس وإن أذن الموٴذن․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۳۵۷، کتاب الصوم، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند