عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 54606
جواب نمبر: 54606
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1331-433/L=10/1435-U أخرج الترمذي (الصوم/ ما جاء في لیلة النصف من شعبان (رقم: ۷۳۹) وابن ماجہ إقامة الصلوات / ما جاء في لیلة النصف إلخ رقم․ ۱۳۸۹) من طریق یحیی بن أبي کثیر عن عروة عن عائشة قالت: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلة․․ فقال: إن اللہ ینزل لیلة النصف من شعبان إلی السماء الدنیا فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب، وابن ماجہ أیضا (۱۳۸۸) عن علي بن أبي طالب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا، فإن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدینا الحدیث․ (۲) کسی صحابی یا تابعی وغیرہ کا شوال کے چھ روزے رکھنا صراحتاً کسی اثر وغیرہ میں بندے کی نظر سے نہیں گذرا، اور جہاں تک امام ابوحنیفہ اور امام مالک وغیرہ کے اسے بدعت سے تعبیر کرنے کی بات ہے تو بندے کی نظر سے بدعت کا لفظ بھی نہیں گذرا، البتہ مکروہ کی بات ملتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان چھ روزوں کو بھی رمضان کے روزوں کی طرح فرض یا واجب ہونے کا مظنہ پیدا نہ ہوجائے۔ وقال في الموٴطا: ما رأیت أحدا من أہل العلم یصومہا، قالوا: فیکرہ لئلا یظن وجوبہ․ وقال الشیخ ابن الہمام: وجہ الکراہة أنہ قد یفضي إلی اعتقاد لزومہا من العوام لکثرة المداومة․ وقال في الإعلاء: الکراہة محمولة علی احتمال سوء العقیدة لئلا یظن أنہا من الفرائض لاتصلہا برمضان․ (فتح الملہم ۳/۱۸۷ ط: اشرفیہ دیوبند) و(اعلاء السنن: ۱۷۴۹) اور امام صاحب کی طرف کراہت کی نسبت مطلقاً کرنا درست نہیں، وقد ردّ فیہا علی ما في منظومة التباني وشرحہا من عزوہ الکراہة مطلقا إلی أبي حنیفة․ اھ (فتح الملہم: ۳/۱۷۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند