عنوان: رمضان میںاستنجا میں مبالغہ كرنا
سوال: میں ایک بار جماعت میں تھا، وہاں ایک عالم صاحب جو دیوبندی ذہن کے تھے ،انہوں نے ہمیں استنجاء کاطریقہ بتایا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ جب ہم ضرورت سے فارغ ہو جائیں تو استنجاء کی جگہ (مقعد)کو ویسے ہیں کھلے رکھیں جیسااستنجاء میں رہتاہے اور پھر جو ہے پانی سے دھولیں ، یہ طریقہ مجھے کافی مناسب لگا کہ س سے پوری طرح صفائی کا اطمینان ہوتاہے، اور تب سے میں اسی طرح سے استنجاء کررہا ہوں، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟حال ہی میں میں نے آپ کے فتوی میں پڑھا کہ روزہ کی حالت میں مقعد میں پانی جانے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے، اس وجہ سے میں کافی پریشان ہوں کہ معلوم نہیں اس طریقے سے استنجاء کرنے سے میرے روزے ہوئے بھی یا نہیں؟ میں نے یہ طریقہ کئی لوگوں کو بھی بتایا۔ مہربانی کرکے اس بارے میں وضاحت کیجئے۔ اللہ آپ کو دین کی خدمت کرنے کے لیے بہترین جزائے خیر دے۔
جواب نمبر: 5087601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 557-389/L=5/1435-U
استنجا میں اگر اس قدر مبالغہ کیا جائے کہ پانی حقنہ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا (حقنہ پائخانہ کی راہ میں وہ جگہ ہے، جہاں پر پچکاری وغیرہ کے ذریعے دوا پہنچائی جاتی ہے) یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کوشش اور ارادہ کے ساتھ ایسا کیا جائے، مگر استنجا میں بالعموم ایسا نہیں ہوتا ولو بالغ في الاستنجاء حتی بلغ موضع الحقنة فسد وہذا قلما یکون ولو کان فیورث داء عظیما (شامی) البتہ آپ خیال رکھیں کہ روزے کی حالت میں استنجا میں مبالغہ سے کام نہ لیں ویبالغ في إرخاء المقعدة․․․ إن لم یکن صائمًا، والصوم لا یبالغ حفظًا للصوم عن الفساد (مراقي الفلاح: ۴۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند