• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 49308

    عنوان: تراویح اور شبینوں سے متعلق

    سوال: ہمارے علاقے میں ابتدا میں لوگوں میں تراویح کا شعور اور ذوق پیدا کرنے کے لیئے سہ شبی اور چھ شبی شبینوں کا رواج ڈالا گیا اب الحمدللہ شعور بھی بیدار ہو گیا لیکن اب بیس رکعت تراویح کے بوجھ سے بچنے کے لئے لوگ اپنے کاموں کا عذر کرکے سہ شبی اور چھ شبی شبینون میں ہی شرکت کرنے لگے ہیں اور ہمارے اہل حق علما بھی عوام کوسہولت دینے کے لیے اپنی کو ششوں سے سہ شبی اور چھ شبی کو مزید تقویت پہنچارہے ہیں جبکہ بیس رکعت تراویح کو ختم کرنے کی سازشیں شروع ہو چکی ہیں ایک طبقہ کی طرف سے ۔کیا سہ شبی اور چھ شبی کی گنجائش ہے ؟نیز تراویح میں اصل سنت قرآن ختم کرنا ہے یا تراویح پڑھنا ؟

    جواب نمبر: 49308

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 289-295/N=3/1435-U (۱) مروجہ شبینوں میں عام طور پر قرآن پاک اتنی تیز پڑھا جاتا ہے کہ بہت سے حروف کٹ جاتے ہیں اور تجوید کے قواعد کا تو بالکل پاس ولحاظ نہیں کیا جاتا اور ہرشفعہ کی پہلی رکعت میں بعض مقتدی امام کے رکوع کی تکبیر کہنے تک نماز میں شامل نہ ہوکر باتوں میں یا ادھر ادھر کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، یا خواہ مخواہ آرام کے لیے بیٹھے رہتے ہیں جس سے لازمی طور پر نماز اور تلاوت قرآن پاک کی بے ادبی وبے اکرامی ہوتی ہے اور شبینہ میں شرکت کرنے والے بعض حضرات شبینہ میں پورا قرآن سن کر مابقیہ رمضان کے لیے تراویح کی نماز کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اس لیے درج بالا مفاسد وخرابیوں کے پیش نظر مروجہ شبینے بلاشبہ قابل ترک ہیں، عوام میں ہرگز ان کا رواج نہ دینا چاہیے، البتہ اگر کوئی جید حافظ قرآن قرآن پاک کا ذوق وشوق رکھنے والے چند مخصوص مقتدیوں کو لے کر رمضان میں کئی قرآن ختم کرنے کی نیت سے روزانہ پانچ پارے یا دس پارے پڑھے اور اس میں اوپر ذکرکردہ خرابیوں میں سے کوئی خرابی نیز کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، بلاشبہ جائز ودرست ہے۔ (۲) یکم رمضان سے لے کر آخر رمضان تک ہر رات تراویح کی نماز پڑھنا سنت موٴکدہ ہے اور اس میں پورا قرآن پڑھنا یا سننا یہ بھی سنت ہے بلکہ پہلی سنت دوسری سے زیادہ اہم ہے، لہٰذا چند راتوں میں تراویح کی نماز میں پورا قرآن پڑھ کر یا سن کر مابقیہ ایام میں تراویح کی نماز تک نہ پڑھنا درست نہیں، مکروہ تحریمی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند