• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 28530

    عنوان: (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی صحابی رضی اللہ عنہ ایک سے نو ذی الحجہ تک روزے رکھتے تھے یا نہیں؟
    (۲) عرفہ کے دن علاوہ ایک سے نو تک ہم روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
    (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ صرف نجاشی کی پڑھی یا باقی اور صحابہ رضی اللہ عہنم کا بھی؟ براہ کرم، صحیح حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ 

    سوال: (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی صحابی رضی اللہ عنہ ایک سے نو ذی الحجہ تک روزے رکھتے تھے یا نہیں؟
    (۲) عرفہ کے دن علاوہ ایک سے نو تک ہم روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
    (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ صرف نجاشی کی پڑھی یا باقی اور صحابہ رضی اللہ عہنم کا بھی؟ براہ کرم، صحیح حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ 

    جواب نمبر: 28530

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 129=33-2/1432

    (۱) نسائی کی روایت میں ہے: ”عن حفصة قالت، اربعٌ لم تکن یدعہن النبي - صلی اللہ علیہ وسلم- صیام عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شہر، ورکعتان قبل الفجر“ (یعنی چار عمل ایسے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہ کیا کرتے تھے۔ عاشوار کا روزہ، ایک سے نو ذی الحجہ تک کا روزہ، ہرمہینہ کے تین دن کا روزہ اور فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت) ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں فرمایا ہے: ”والعشر“ بالجر، وقیل بالرفع أي صیام عشر ذي الحجة، والمراد من العشر تسعة أیام مجازًا کقولہ تعالی: ”الحج ِأشہر“․․ ثم ہذا الحدیث بظاہرہ یناقض ما سبقہ من حدیث عائشة قالت: ما رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صائمًا في العشر والجمع بأن کلا منہما روت ما رأت، ونقلت ما عَلِمَتْ فلا تنافي بینہما، ومما یوٴکد روایة النسائي ہذہ خبر البخاری: ”ما من أیام العمل الصالح فیہا أحب إلی اللہ تعالیٰ من ہذہ الأیام یعني أیام العشر قالوا: ولا الجہاد في سبیل اللہ قال ولا الجہاد في سبیل اللہ إلا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذلک بشيء، وروی أبوعوانة في صحیحہ: صیام یوم منہا یعدل صیام سنةٍ، وقیام لیلة منہا بقیام لیلة القدر۔ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ملا علی قاری نو ذی الحجہ تک روزے کے استحباب کو ثابت کیا ہے اور بطور تائید کے بخاری اور ابوعوانہ کی روایت کو بھی ذکر فرمایا ہے (مرقاة: ۴/۳۰۵، ط: اشرفیہ)
    (۲) صرف عرفہ کے دن روزہ رکھنا بھی صحیح ہے اور اس کے بارے میں بھی بہت سے فضائل ہیں اور یہی آج کل زیادہ معمول بہ ہے۔
    (۳) ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھے جانے کے مسئلے میں خصم کے دلائل ذکر کرتے ہوئے کئی اور صحابی کا تذکرہ فرمایا ہے، مثلاً معاویہ بن معاویة مزنی اس کو طبرانی نے ابوامامہ سے روایت کیا ہے، زید بن حارثہ اور جعفر اس کا تذکرہ مع قصہ کے واقدی نے مغازی میں ذکر کیا ہے، لیکن ملا علی قاری فرماتے ہیں، یہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں، طبرانی کی روایت میں بقیہ بن الولید ہے اور عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، اور مغازی کی روایت منقطع ہے، پہلی روایت ابن سعد میں بھی ہے، لیکن اس میں علاء بن یزید ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔ (مرقاة: ۴/۴۶، ط: اشرفیہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند