• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 25923

    عنوان: اس رمضان المبارک کے مہینہ میں مجھ سے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہوگئی ، وہ یہ ہے کہ میں اور میری اہلیہ نے نماز فجر کے بعد روزہ حالت میں ہمبستری کر لی، پہلے تو میں نے یہ سمجھا کہ بیوی (حلال) ہے ، خواہش ہوئی اور ہمبستری ہوگئی ، لیکن رمضان کے مہینہ میں یہ سب کچھ ہواسوچ کر دل میں گمان آیا اور اسی سوچ کو دل میں لے کر میں محلہ کی مسجد کے مولانا صاحب سے ملا اور بات کی اور مولانا نے اس عمل کو گناہ بتایا۔ میں نے اللہ تعالی سے اس گناہ کی توبہ مانگی اور اس گناہ کو کبھی نہ دہرانے کی نیت کر لی۔ اور مولانانے بتایا کہ اس عمل کا کفارہ یہ ہوگا کہ رمضان کے بعد ہم میاں بیوی کو 60/ دن مسلسل روزے رکھنے پڑیں گے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتے ہیں تو 60/مسکنوں کو کھانا کھلانے پڑیں گے۔ 
    مفتی صاحب!آپ کو بتادوں کہ میں ایک مشترکہ فیملی میں رہتاہوں اور اگر رمضان کے بعد بھی مسلسل 60/ روزے ہم میاں بیوی رکھیں گے تو فیملی میں سب کو پتا چل جائے گااور سب کو اس کی وجہ بتانا مشکل ہوجائے گا۔ اسی بات کو لے کر میں نے مولانا صاحب سے پھر بات کی۔ اور 60/روزے کے بدلے میں 60/ مسکنوں کو کھانا کھلانے کی خواہش ظاہر کی ، مگر مولانا صاحب اس بات سے سہمت نہیں ہوئے اور پھر وہی 60/روزے رکھنے کی رائے دی۔ میں نے تو سناہے کہ علمائے کرام قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں اور حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے لیتے ہیں ، مگرمیری یہ بھی مجبوری ہے کہ میں رمضان کے 30/ روزے بھی الحمد للہ مشکل سے رکھتاہوں اور 60/روزے رکھنا میرے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں مانتاہوں کہ مجھ سے گناہ ہوا ہے اور میں اس کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہتاہوں، اس لیے میں آپ سے میں مشورہ لینا چاہتاہوں کہ کیا میں کفارہ کے طورپر 60/ مسکنوں کو کھاناکھلادوں؟ کیوں کہ 60/روزے رکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے، اللہ رحم کرے مجھ پر !
    براہ کرم، جواب دینے سے پہلے میری پریشانیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ بڑی مہر بانی ہوگی۔

    سوال: اس رمضان المبارک کے مہینہ میں مجھ سے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہوگئی ، وہ یہ ہے کہ میں اور میری اہلیہ نے نماز فجر کے بعد روزہ حالت میں ہمبستری کر لی، پہلے تو میں نے یہ سمجھا کہ بیوی (حلال) ہے ، خواہش ہوئی اور ہمبستری ہوگئی ، لیکن رمضان کے مہینہ میں یہ سب کچھ ہواسوچ کر دل میں گمان آیا اور اسی سوچ کو دل میں لے کر میں محلہ کی مسجد کے مولانا صاحب سے ملا اور بات کی اور مولانا نے اس عمل کو گناہ بتایا۔ میں نے اللہ تعالی سے اس گناہ کی توبہ مانگی اور اس گناہ کو کبھی نہ دہرانے کی نیت کر لی۔ اور مولانانے بتایا کہ اس عمل کا کفارہ یہ ہوگا کہ رمضان کے بعد ہم میاں بیوی کو 60/ دن مسلسل روزے رکھنے پڑیں گے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتے ہیں تو 60/مسکنوں کو کھانا کھلانے پڑیں گے۔ 
    مفتی صاحب!آپ کو بتادوں کہ میں ایک مشترکہ فیملی میں رہتاہوں اور اگر رمضان کے بعد بھی مسلسل 60/ روزے ہم میاں بیوی رکھیں گے تو فیملی میں سب کو پتا چل جائے گااور سب کو اس کی وجہ بتانا مشکل ہوجائے گا۔ اسی بات کو لے کر میں نے مولانا صاحب سے پھر بات کی۔ اور 60/روزے کے بدلے میں 60/ مسکنوں کو کھانا کھلانے کی خواہش ظاہر کی ، مگر مولانا صاحب اس بات سے سہمت نہیں ہوئے اور پھر وہی 60/روزے رکھنے کی رائے دی۔ میں نے تو سناہے کہ علمائے کرام قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں اور حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے لیتے ہیں ، مگرمیری یہ بھی مجبوری ہے کہ میں رمضان کے 30/ روزے بھی الحمد للہ مشکل سے رکھتاہوں اور 60/روزے رکھنا میرے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں مانتاہوں کہ مجھ سے گناہ ہوا ہے اور میں اس کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہتاہوں، اس لیے میں آپ سے میں مشورہ لینا چاہتاہوں کہ کیا میں کفارہ کے طورپر 60/ مسکنوں کو کھاناکھلادوں؟ کیوں کہ 60/روزے رکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے، اللہ رحم کرے مجھ پر !
    براہ کرم، جواب دینے سے پہلے میری پریشانیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ بڑی مہر بانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 25923

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 2117=366-10/1431

    روزے رکھنے میں کسی کو کیا پتہ چلے گا، آپ جس قدر اخفاء چاہیں کرسکتے ہیں، پھر پتہ چلنے کا احتمال ساٹھ مسکینوں کے کھانا کھلانے میں بھی ہے بلکہ اس میں راز کے افشاء ہونے کے قوی امکانات ہیں، ساٹھ اجنبی لوگوں کو تو صرف گھر والے نہیں اہل محلہ آتے جاتے کھاتے پیتے دیکھیں گے تو ہرآدمی کے دل میں داعیہ پیدا ہوگا کہ وہ خلاف عادت اس معاملہ کی ضرور تحقیق کرے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، پھر آپ کے اور آپ کی بیوی کے لیے لگاتار ساٹھ ساٹھ اور ایک ایک روزہ قضا کا یعنی کل اکسٹھ اکسٹھ روزوں کا رکھنا مشکل اور ناممکن کیوں ہے؟ اس کی وجوہات اگر صاف صحیح واضح لکھتے تو جواب لکھا جاتا۔ آپ نے جو کچھ وجوہات لکھی ہیں وہ تو شرعاً درست نہیں بلکہ بہانہٴ نفس کے قبیل سے ہیں اور آپ کو مولانا صاحب نے جو حکم شرعی بتلایا ہے وہی آپ دونوں پر لاگو ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند