• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 24947

    عنوان: میرا سوال ۱۵/ شعبان سے متعلق ہے، میں اس کی فضیلت اور اس سے متعلق حدیث کے حوالے سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل ہمارے معاشرے میں جو چلن عام ہے وہ صحیح ہے یا غلط؟ ساتھ ہی ۱۵/ شعبان کا اہتمام کیا جائے یا نہیں اوراگر کیا جائے تو کیسے، بیشک اللہ صحیح راستہ دکھانے والا ہے۔

    سوال: میرا سوال ۱۵/ شعبان سے متعلق ہے، میں اس کی فضیلت اور اس سے متعلق حدیث کے حوالے سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل ہمارے معاشرے میں جو چلن عام ہے وہ صحیح ہے یا غلط؟ ساتھ ہی ۱۵/ شعبان کا اہتمام کیا جائے یا نہیں اوراگر کیا جائے تو کیسے، بیشک اللہ صحیح راستہ دکھانے والا ہے۔

    جواب نمبر: 24947

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1320=1056-9/1431

    بعض روایات میں پندرہویں شعبان کی رات میں عبادت کرنے اور دن میں روزہ رکھنے کی ہدایت آئی ہے، یہ روایتیں یعنی ان میں سے اگرچہ ضعیف ہیں، مگر کثرت طرق کی وجہ سے ان کے ضعف کی تلافی ہوگئی اور اس حد تک فضیلت ثابت ہوئی کہ رات میں نماز تلاوت توبہ واستغفار کا انفرادی طور پر اہتمام کرلیا جائے اور دن میں روزہ رکھ لیا جائے بس۔ یہ کوئی فرض واجب درجہ کا حکم نہیں ہے بلکہ نفل درجہ کا ہے، فضیلت وارد ہونے کی وجہ سے عام نفلوں کے مقابلہ میں اس کا ثواب زیادہ ہے۔ معاشرہ میں اجتماعی طور پر جاگنے کا اہتمام عبادت کے لیے مسجدوں میں جمع ہونے کا التزام، شور شرابہ کے ساتھ قبرستان میں بھیڑ بھڑاکا کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں، قبرستان جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں ایک مرتبہ ثابت ہے،اس لیے کبھی چلا جائے مضائقہ نہیں مگر قبرستان جانے کا مقصد موت کی یاد کو تازہ کرکے تذکیر آخرت کرنا اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ امور مفقود ہیں اور ایصال ثواب تو گھر بیٹھ کر بھی کیا جاسکتا ہے، لہٰذا بھیڑبھڑاکے شور شرابے کے ساتھ قبرستان جانے کا رواج خلاف منشا شارع ہوا، لہٰذا اس رسم کو ختم کرنا چاہیے۔ اخیر میں وہ روایت لکھ دی جاتی ہے جس سے اس رات کی فضیلت ثابت ہے، بعض دیگر روایتوں میں دوسری فضیلتیں بھی آئی ہیں۔
    عن علي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارھا فإن اللہ تعالی ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا فیقول ألا من مستغفر لي فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ ألا مبتلّی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر․ رواہ ابن ماجہ (مشکاة:۱۱۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند