عبادات >> صوم (روزہ )
سوال نمبر: 152348
جواب نمبر: 152348
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 895-743/D=9/1438
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے مابعد کے زمانے تک لوگ غروب شمس کا خود مشاہدہ کرکے افطار کرتے تھے پھر بعد کے دور میں گھنی آبادی اور گھروں میں رہنے والوں کو اذان کے ذریعہ اطلاع ہو جاتی اور کہیں گولہ داغنے اور نقارہ بجانے کا رواج بھی تھا۔ لیکن سحر میں صبح صادق کے مشاہدہ سے سحری کھانا بند کرتے تھے اور بعد کے دور میں گولہ نقارہ وغیرہ بھی ہونے لگا اذان کے ذریعہ سحری بند کرنے کا معمول نہیں تھا کیونکہ اذان صبح صادق کے ظاہر ہونے کے بعد ہوتی ہے جب کہ سحری کا وقت ختم ہوکر فجر کا وقت داخل ہو جائے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور میں ایک اذان تہجد میں اٹھانے کے لیے بھی ہوتی تھی اس وقت سحری کھانا جائز ہوتا۔
ختم سحر یا صبح صادق کا جو قت نقشہ اوقات میں لکھا رہتا ہے سحری کھانا احتیاطاً اس سے پانچ سات منٹ پہلے ختم کردینا چاہئے کیونکہ یہ حسابات تخمینی ہیں اور گھڑیوں کا فرق بھی عام طور پر ہوتاہے لہٰذا صبح صادق کے آخری منٹ تک کھاتے رہنے خلاف احتیاط ہے۔
نیز صبح صادق کے وقت پر اذان فجر نہ کہی جائے بلکہ دس منٹ بعد کہی جائے کیونکہ مختلف جنتریوں میں بھی فرق ہوتا ہے اور اذان کے لیے صبح صادق کا بیِّن یعنی اچھی طرح ظاہر ہو جانا ضروری ہے اسی لیے دارالعلوم دیوبند کے اشتہارات رمضان میں ایک خانہ وقت ختم سحر کا ہے اور دوسرا خانہ وقت اذان فجر کا ہے دوسرے خانے میں پہلے خانے کے وقت سے دس منٹ بعد کا وقت لکھا جاتا ہے۔ سحری کے وقت کے لیے اعلان کوئی شرعی چیز نہیں ہے بلکہ لوگوں کی سہولت کے لیے شرعی عمل (روزہ) میں معاون ہے۔ اعلان نہ بھی کیا جائے اور لوگ اپنے اپنے طور پر صبح صادق کا مشاہدہ کرکے یا گھڑی وغیرہ کے مدد سے صبح صادق سے پہلے پہلے سحری کھانا بند کردیں یہ بھی درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند