• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 9117

    عنوان:

    کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ اقامت کے الفاظ اذان کے بالمقابل صرف ایک مرتبہ ادا کرنے چاہیے ۔ یہاں سعودی عرب میں لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ جب کہ انڈیا میں میں نے دیکھا ہے کہ اقامت بھی اذان جیسی ہی ہے صرف لفظ قدقامت الصلوة کے ۔ کیا آپ مجھے حدیث کے ساتھ اس کا تفصیلی جواب عنایت فرمادیں گے تاکہ میں خود سمجھ سکوں اوردوسروں کوبھی سمجھا سکوں۔

    سوال:

    کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ اقامت کے الفاظ اذان کے بالمقابل صرف ایک مرتبہ ادا کرنے چاہیے ۔ یہاں سعودی عرب میں لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ جب کہ انڈیا میں میں نے دیکھا ہے کہ اقامت بھی اذان جیسی ہی ہے صرف لفظ قدقامت الصلوة کے ۔ کیا آپ مجھے حدیث کے ساتھ اس کا تفصیلی جواب عنایت فرمادیں گے تاکہ میں خود سمجھ سکوں اوردوسروں کوبھی سمجھا سکوں۔

    جواب نمبر: 9117

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1628=286/ل

     

    اقامت کے کلمات کو مثل اذان کے دو دو مرتہ کہنا حنفیہ کا مذہب ہے، حنفیہ کی دلیل حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: کان أذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفعًا شفعًا في الأذان والإقامة (ترمذي شریف) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان میں دو، دو کلمات تھے، اذان میں بھی اوراقامت میں بھی، احناف کے علاوہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اقامت میں ہرکلمہ ایک، ایک مرتبہ کہا جائے گا سوائے تکبیر کے اور قد قامت الصلاة کے یہ حضرات حضرت انس - رضی اللہ عنہ- کی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حکم دیئے گئے کہ وہ اذان دوہری کہیں اور اذان اکہری (ترمذی شریف) احناف کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان میں مماثل کلمات کو دو سانس میں کہیں،البتہ قد قامت الصلاة دو سانسوں میں کہیں کیوں کہ یہی کلمات اقامت میں مقصود ہیں، حاصل یہ ہے کہ حنفیہ ایتار اقامت کو ایتار صوتی پر محمول کرتے ہیں، اور یہ معنی احناف نے کیوں سمجھیں ہیں اس کی پہلی وجہ وہ حدیث ہے جو اوپر گذری ہے، دوسری وجہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرة کلمة والإقامة سبع عشرة کلمة قال أبوعیسی ھذا حدیث حسن صحیح (ترمذی شریف) یعنی حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے سترہ کلمات سکھائے تھے، سترہ عدد خاص ہے اس میں کمی زیادتی نہیں ہوسکتی، پس دونوں حدیثوں میں جمع کی صورت یہی ہے کہ ایتار صوتی مراد لیا جائے، تیسری وجہ یہ ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک اقامت کے شروع میں بھی اور آخر میں بھی تکبیر دو، دو مرتبہ ہے، اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ ایتار کے منافی ہے، حافظ رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ چونکہ دو مرتبہ اللہ اکبر ایک ہی سانس میں کہا جاتا ہے اس لیے یہ ایک ہی کلمہ ہے، پس ایتار صوتی مراد لینا تاویل بعید نہیں دوسرے حضرات بھی بوقت ضرورت یہ تاویل کرتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند